تعمیراتی بحران اور کسادبازاری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سن 2008ء کا عالمی بحران دنیا بھر میں ایک شدید معاشی مندی لایا اور کورونا کے باعث پیدا ہونے والی موجودہ کساد بازاری سے قبل اسے گریٹ ڈپریشن کے بعد سب سے سنگین مالی بحران سمجھا گیا۔اس کی وجوہات میں بینکوں کا ضرورت سے زیادہ رسک لینا، امریکی ہاؤسنگ ببل کا ٹوٹنا جس کے نتیجے میں رئیل اسٹیٹ کا شعبہ تباہ ہوگیا اور دیگر مالیاتی اداروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور دیگر اسباب شامل ہیں۔

یہ مالیاتی بحران پیدا ہونے میں برسوں لگے تاہم وال اسٹریٹ نے اسے نظر انداز کیے رکھا۔ 2007ء کے موسمِ گرما تک دنیا بھر کی مالی منڈیوں میں سالہا سال سے کم خرچ قرضوں کی گونج سنائی دیتی رہی۔ برسوں کی تنبیہہ کے باوجود بہت کم سرمایہ دار یہ سمجھنے میں کامیاب رہے کہ بحران پورے عالمی مالیاتی نظام کا گھیراؤ کر لے گا اور امریکا جیسے ملک میں کساد بازاری ہوگی۔ یہ مالیات اور معیشت کی تباہی تھی جس کی وجہ سے عام شہری بے روزگار ہوئے، زندگی بھر کی جمع پونجی لٹ گئی اور مکانات ہاتھوں سے نکل گئے۔

قبل ازیں سالوں پہلے مالی بحران پیدا ہوا جس میں کم خرچ کریڈٹ اور قرض دینے کیلئے آسان شرائط سامنے آئیں جس سے رہائش کا بلبلہ سامنے آیا جو پھٹا تو مالیاتی ادارے کھربوں ڈالر کی  نامعقول سرمایہ کاری تلے دب گئے۔ لاکھوں امریکی سیکیورٹی اداروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ لاکھوں امریکی جمع پونجی گنوا بیٹھے اور ایسے گھر پائے جن پر قرض ان کی قیمت سے زائد تھا۔ یہاں تک کہ وال اسٹریٹ کے طاقتور کھلاڑی بھی گھٹنوں کے بل گر پڑے۔ لہمن برادرز جو دو عظیم جنگوں اور گریٹ ڈپریشن سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے، اس بحران میں تباہی کے دہانے پر جاپہنچے۔ اس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری تک کساد بازاری کی صورت میں نکلا تاہم پیکیج نے اسٹاک مارکیٹ کو استحکام دیا۔ امریکا میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچی اور 38 لاکھ امریکی بھاری بھرکم قرضوں تلے دبے گھروں میں رہنے پر مجبور ہوئے جو قرض خواہوں کی ملکیت میں چلے گئے۔

اب تقریباً ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد ہمیں عالمی مالیاتی بحران سے سبق سیکھنا ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت نے بظاہر ایک اسکیم شروع کی ہے جس سے لوگوں کو بینکوں سے آسان شرائط پر رہن پر گھر خریدنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ہمیں یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ کم خرچ قرضوں کے باعث تعمیراتی بحران پیدا ہوا تھا جس کی وجہ سے لاکھوں افراد نے اپنے ذرائع آمدن سے بڑھ کر قرض لے لیا۔ مالیاتی دنیا میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسے بحران پائے جاتے ہیں جن میں کسی بھی چیز کی قیمت حد سے زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا پاکستانی معیشت ایسے معاشی اور مالی بحران کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے؟

صورتحال یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کیا رہائشی و تعمیراتی شعبے میں کوئی دوسرا بحران پیدا ہونے والا ہے؟ جبکہ وبائی امراض کی وجہ سے رواں مالی سال غیر معمولی رہا۔ رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کیونکہ بہت سے نو آموز اس میدان میں داخل ہوچکے ہیں۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم سے تعمیراتی بحران پیدا ہوگا جو بالآخر کساد بازاری کا سبب بنے گا۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے اور مستقبل قریب میں آنے والے اقتصادی بحران کو روکنے کی ضرورت ہے۔

نیا پاکستان اسکیم کی بجائے حکومت ملکی ترقی اور پیشرفت پر توجہ دے اور اقتصادی اصلاحات پر کام کرے۔ معیشت کو پیسے کی روانی، کم ٹیرف، بہتر قواعد و ضوابط، ٹیکسز میں کمی، لیبر مارکیٹ میں اصلاحات اور عوامی خدمات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ملک کو ایسی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جن سے اشیائے ضروریہ، کھانے پینے کی چیزوں اور بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوسکے۔ اگر ہم معاشی اصلاحات پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو اس سے کساد بازاری پیدا ہوگی جو ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ 

 

 

 

Related Posts