اس کی ساس ملزم کی پرستار نہیں ہوتی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اقتدار میں آئے تو سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں اور بھینسیں فروخت کرکے باور کرانا چاہا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔ ان کا عرصہ اقتدار وسط مدت تک پہنچا تو کشمیر فروخت کرکے ثابت کیا کہ وہ واقعی پچھلوں سے مختلف ہیں۔ وقت رکتا کہاں ہے، سو سورج کی گردش جلد ان کے اقتدار کے آخری ایام بھی لے آئی۔ ان آخری لمحوں میں وہ توشہ خانے میں پڑی گھڑیاں، پلیٹیں، اور چمچیاں فروخت کرتے پائے گئے۔ ان کے بارے میں یہ تو معروف ہے کہ خریدتے کچھ بھی نہیں۔ گھر خرچہ بھی ڈونرز سے کرواتے ہیں۔ مگر فروخت کی ایسی مہارت کہ بھینس سے سیدھے کشمیر پرپہنچے اور وہاں سے رکابیوں پر آگرے۔

وہ اس بات پر سخت دل گیر ہیں کہ انہیں مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ لگتا ہے جناح ہاؤس کو اسی لئے نذر آتش کروایا کہ اس کی فروخت سے قبل ہی نکال باہر کردئے گئے۔ صد شکر کہ نکال باہر کردئے گئے ورنہ یہ تو شہداء کی یادگاریں بھی بیچ ڈالتے۔ جو انہوں نے نذر آتش کروا دیا وہ دہقان کے وہ کھیت تھے جن سے انہیں بصورت فروخت رزق میسر نہ آسکا سو ماچس لی اور اس کے ہر خوشہ گندم کے پیچھے پڑ گئے۔

قومی املاک کو تیلی کی نذر کرنا ملک کو آگ لگانے کے مترادف ہے۔ 9 مئی کو انہوں نے پاکستان کو آگ لگانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔ ان کی یہ حرکت اس درجہ کریہہ ثابت ہوئی کہ جو یوتھیے ان کی ہر بات کو درست مان لیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کردئے۔ ان کے گوبر کو زعفران ثابت کرنے والے اب کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔

جنہیں ہانک ہانک کر ان کی پارٹی میں لے جایا گیا تھا وہ بھی اب اس جماعت کو چھوڑ رہے ہیں۔ اور وہ بھی جو سیاست کے کوچے سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے۔ سو کسی کے ہانکنے پر نہیں بلکہ اچھی امید پر پہلی بار انہی کی جماعت میں شامل ہوکر سیاسی کارکن بنے تھے۔ ایسے شرفاء کو اپنی اس پہلی کوشش پر ہی پچھتانا پڑ گیا ہے۔

ہمارا اشارہ پی ٹی آئی سندھ کے سابق رہنماء اور ایم ایم گروپ کے سربراہ محمود مولوی کی جانب ہے۔ ان کی شرافت کی گواہی ہم کچھ عرصہ قبل بھی دے چکے کہ وہ پی ٹی آئی کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی تھے۔ اور ہم اس جماعت کے شدید مخالف۔ لیکن تین سال سے ہم ان کی ویب سائٹ میں برسر روزگار ہیں۔ نہ کبھی ہمیں پی ٹی آئی کے خلاف لکھنے سے روکا، اور نہ ہی کبھی ہمارا ایک لفظ یہاں کاٹ پر پھینکا گیا۔ ذرا ڈھونڈ کر دکھایئے کون ہے جو اپنی جماعت کے خلاف لکھنے والے کو بھی جیب تنخواہ دیتا ہو ؟ اس ملک کا کلچر تو یہ ہے کہ ہم جیسوں کو وہ بھی بیروزگار کروادیا کرتے ہیں جن کا اخبار سے کوئی ملکیتی یا انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔

جو پارٹی چھوڑ رہے ہیں صرف انہی پر کیا موقف۔ خود اخیر المومنین کو بھی احساس ہوچلا ہے کہ خود کو ریڈ لائن بنواتے بنواتے قومی ریڈ لائن عبور کر بیٹھے ہیں۔ اب کہتے ہیں، باغی ہمارے کارکن نہ تھے، ایجنسیوں کے لوگ تھے۔ مضحکہ خیزی کی حد دیکھئے کہ پچھلے سال تک ان کی پوری جماعت ایجنسیوں کی تھی۔

کالے شیشوں والے ڈالے ویسے حرکت میں تو نہ آتے تھے۔ ایجنسیاں تھیں جو اپنے یوتھیوں کے لئے لوگوں کو اغوا کرلیا کرتی تھیں۔ تب فیض حمید خود قادر مطلق باور کرانے پر تلے نظر آتے تھے۔ آج صرف پی ٹی آئی ہی نہیں جنرل فیض حمید بھی راندہ درگاہ ہیں۔ اگر یوتھیے 9 مئی والی واردات فیض حمید کے دور میں کرتے تو کیا تب بھی اخیر المومنین یہ دعوی فرماتے کہ یہ ہمارے کارکن نہیں ایجنسیوں کے لوگ تھے ؟ 9 مئی کے فسادی ایجنسیوں کے لوگ تھے مگر اپریل 2022ء سے قبل۔ اب تو یہ دھتکارے ہوئے ہیں تبھی تو ہشکارے ہوئے ہیں۔

ان کی بدبختی دیکھئے کہ 9 مئی کو اس تکبر کا شکار تھے کہ وہ انقلاب فرانس کی تاریخ دہرانے لگے ہیں۔ سو موبائل کیمروں کا بے دریغ استعمال کرکے جدید دور کے انقلاب فرانس کے بعد کی نسلوں کے لئے تاریخ کا ڈیٹا بھی جمع کرتے رہے۔ مگر سیاسی جلسوں میں گھونگرو توڑنے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ انقلاب لانے والے بھوکے ننگے لوگ ہوتے ہیں۔

انقلاب ہمیشہ اشرافیہ یعنی برگر کلاس کے خلاف آئے ہیں۔ سو کسی انقلابی رہنماء پر یہ تمت نہیں کہ وہ بھینسیں، اور شاہی رکابیاں فروخت کرکے ارب پتی بنا ہے۔ اور نہ ہی اس کے ورکرز برگر کلاس کے عیش زادے ہوا کرتے تھے۔ مستقبل کا مؤرخ یوتھیوں کے صرف احوال ہی نہیں لکھے گا بلکہ ہر سطر کے بعد ایک سمائیلی بھی ڈالتا جائے گا۔ وہ ہر صفحے کے اختتام پر شاید یہ بھی دہراتا تہراتا رہے کہ یہ پہلا انقلاب تھا جو برگروں نے برپا کرنے کی کوشش کی۔

کیا آپ نے غور کیا، یوتھیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے کسی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ضرورت نہیں پڑی ؟ جتنی بھی فوٹیج دستیاب ہے۔ اللہ کے فضل سے خود پلاسٹکی انقلابیوں کی تیار کردہ ہے۔ جب کیمرہ ان کے ہاتھ میں تھا تو جنرل عاصم منیر کو للکار رہے تھے۔ بیچارے بھول گئے تھے کہ یہی کیمرے پولیس کے ہاتھ میں بھی ہوتے ہیں۔

سو اب پولیس کے کیمروں میں جھانک جھانک کر “پاک فوج زندہ باد” کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور اس کے باوجود لگا رہے ہیں کہ ان نعروں کے عوض معافی ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر و تعز من تشاء و تذل من تشاء کو کون بدل سکتا ہے ؟ سو سزا اور ناقابل قبول معافی دونوں کی ذلت کا سامنا ہے۔ ذلت کا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ بلکہ جس اخیر المومنین کی کال پر نکلے تھے وہی اب انہیں اپنا ماننے کو تیار نہیں۔

کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے اپنے کارنامے کی خود ویڈیوں نہ بنوا رکھی ہو۔ سو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دینے والے ججز کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔ آرمی ایکٹ کے تحت بیٹھے جج کی پہلی خوبی ہی یہ ہے کہ اس کی ساس اس کے ملزم کی پرستار نہیں ہوتی، سو اپنے ملزم کو سامنے پاکر اسے خوشی نہیں ہوتی، نہ ہی وہ اپنے ملزم کے لئے کسی گڈ لک کا قائل ہوتا ہے۔ اور ہاں ! ضمانت تو اس کی عدالت میں شجر ممنوعہ ہے۔ یہ سوغاتیں صرف ٹرک اڈوں پر بٹتی ہیں !

Related Posts