کوؤں کو لٹکانا اب ضروری ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 ایک مثال ہے کہ “ایک کسان نے کھیت میں مرا ہوا کوا لٹکایا ہوا تھا کسی نے وجہ پوچھی تو کسان کہنے لگا باقیوں کو ڈرانے کے لیے ایک کو لٹکانا پڑتا ہے”۔

جمعہ کے روز سیالکوٹ میں راجکوانڈسٹری کےجنرل منیجرپروڈکشن پریانتھا کماراکوتوہین مذہب کا الزام لگاکر قتل کردیا گیا ۔مشتعل ہجوم نے پہلے مقتول پر بہیمانہ تشدد کیا اور ڈنڈے مار مار کرپریانتھا کمارا کو قتل کیا اور اس کے بعد اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے رہے اور بعد میں اس کی لاش کو سڑک پر آگ لگادی گئی ۔مشتعل افراد کا دعویٰ تھا کہ مقتول نے مبینہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کیے تھے، مشتعل افراد نے فیکٹری میں توڑ پھوڑ بھی کی۔

سانحہ سیالکوٹ میں ایک افسوسناک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ پولیس موقع پر پہنچنے کے باوجود منیجر کے قتل کو روکنے میں ناکام رہی۔سیالکوٹ پولیس اہلکار جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو ہجوم بے قابو ہوچکا تھا جسکی وجہ سے مزید نفری طلب کی گئی تاہم اس وقت تک پریانتھاکمارا قتل ہوچکا تھا اور اس کی لاش جلائی جاچکی تھی۔

پاکستان میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے نام پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی لاتعداد واقعات پیش آچکے ہیں اور ایسے واقعات سے پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات اور تشخص کونقصان پہنچتا ہے اور عالمی فورمز پر قرض ، ایف اے ٹی ایف اور جنرل اسمبلی یا سیکورٹی کونسل میں اس طرح کے واقعات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جائے ہیں ۔پاکستان کے دنیا کے بہت کم ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جن میں سے سری لنکا ایک ہے تاہم اس واقعہ کے بعد دوطرفہ تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میں اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے مسیحی، ہندو اور سکھ ودیگر رہنماؤں نے بھی سانحہ کی شدید الفاظ میں مذہب کی ہے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کاقانون کسی شہری کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کو سزاء دے۔حکومت سانحہ کے ذمہ داران کو سخت سے سخت سزاء دے تاکہ اقلیتوں میں پایا جانیوالا خوف دور ہو اور مذہب کی آڑ میں بے گناہوں کو نشانہ بنانے والوں کا راستہ روکا جاسکے۔

کہیں پڑھا تھا کہ “سولہویں صدی کے فرانس میں ایک گاؤں میں یہ افواہ اُڑی کہ ایک میاں بیوی کے جوڑے نے چرچ میں ایک مقدس مورتی کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہ جوڑا رات بسر کرنے کے لیے گاؤں میں رکا تھا۔آناً فاناً مجمع اکٹھا ہوا اور انہوں نے تشدد کرکے میاں بیوی کو قتل کیا اور دونوں بد نصیبوں کی لاشیں جلا دیں۔والٹیر اور روسو نے اِس کے خلاف آواز اٹھائی پھر تاریخ نے دیکھا کہ فرانسیسی انقلاب آیا اور اشرافیہ اور بادشاہ اور چرچ کے مذہبی گماشتوں کے سر چوک میں قلم کردئیے گئے”۔

وقت آگیا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ کے ذمہ داران کو نشان عبرت بنایا جائے کیونکہ جس طرح کھیت بچانے کیلئے کوؤں کو مارکر لٹکانا ضروری ہوتا ہے، ویسے ہی  انسانیت کے دشمن ایسے مومنین کو جنت بھجوا کر زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔

Related Posts