بھارت میں جی 20۔۔۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی زیربحث نہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت کا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سبب مکروہ چہرہ ساری دنیا کے سامنے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہوتا جارہا ہے، فی الحقیقت بھارت میڈیا کی آزادی کو روک رہا ہے اور پریس کانفرنسوں اور سوالات کو محدود کررہا ہے۔

بلاشبہ جی 20 جیسے اعلیٰ سطح کے اجلاس اور اس طرح کی دیگر تقریبات میں میڈیا مینجمنٹ اور سنسر شپ کی کچھ نہ کچھ سطح مودی حکومت جیسی انتخابی آمریت کو ہمیشہ برقرار رکھنی پڑے گی تاہم پاکستان اوردنیا کی انسانی حقوق کی علمبردار قوموں کیلئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کیلئے تسلسل جاری رکھے۔

اگر ہم جی 20 کا مشترکہ اعلامیہ پڑھیں تو اس سے بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امریکا جی 20 ممالک کو چین کی ترقی کو روکنے کی اپنی پالیسی کی جانب لے جانے کی کوشش میں ہے۔

ایک جانب تو جی 20 میں یوکرین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے اور جی 20 ممالک انسانی حقوق کے چیمپیئن کہلانا پسند کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب جی 20 کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کا لکھا ہوا خط پڑھ کر یاد دلانا پڑتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، اس کے باوجود جی 20 ممالک نے مسئلہ کشمیر کے متعلق کوئی بھی بات نہ کی بلکہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

بھارت، سعودی عرب اور امریکا نے مل کر نارتھ کوریڈور، ایسٹرن کوریڈور اور اکنامک کوریڈور کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد پہلے گلف کو بھارت سے اور پھر گلف کو یورپ سے منسلک کرنا ہے، اس کا مقصد بھی چینی پیش قدمی روکنا یعنی چائنہ کنٹینمنٹ پالیسی ہے۔

چین نے تائیوان میں امریکا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور مداخلت کے متعلق بھی خارجہ محاذ پر انتہائی مؤثر بیان دیا کہ تائیوان ہماری ریڈ لائن ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکا کی اس خطے میں مداخلت کا براہِ راست اثر چین، سی پیک اور ایس سی او اور ای سی او کے رکن ممالک پر زیادہ ہوگا، بھارت ایس سی او کا دوغلا رکن ہے جو دونوں اطراف سے فائدے اٹھانا چاہتا ہے اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ آخر میں ایس سی او سے باہر ہوکر امریکا کی گود میں ہونے کی وجہ سے ایس سی او اسے نکال باہر کریگی۔

چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (بی آر آئی) پر 4 کھرب ڈالر مختص کرکے 1 کھرب ڈالر کے اخراجات کرچکا ہے، جس کے مقابلے پر امریکا نے بھی کوریڈور کی بات کی تاہم چین اس معاملے میں بہت آگے جا چکا ہے جسے دیکھتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ سیاسی بیان داغا کہ میں چین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار رکھوں گا۔

ہم چین کی معاشی ترقی کو روک نہیں رہے ہیں تاہم یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ امریکا اپنی چائنہ کنٹینمنٹ پالیسی میں کتنا آگے بڑھ سکتا ہے اور چین اپنے ترقیاتی منصوبوں میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔

بھارت اپنے منفی مفاد کے لیے جغرافیائی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت نے G20 سربراہی اجلاس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر شامل ہونے سے بڑی کامیابی اور ڈھٹائی سے روکا حالانکہ گزشتہ جی 20 سربراہی اجلاس میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بھارت نے مشترکہ اعلامیے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر نہیں آنے دیا۔ دیکھا جائے تو جی 20 ایک اقتصادی فورم ہے جس کے بنیادی مقاصد میں انسانی حقوق شامل نہیں تاہم G20 کے چارٹر میں انسانی حقوق کو فروغ دینے کا ایک نکتہ شامل کر لیا گیا ہے تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جی 20 کے اراکین وہ ممالک ہیں جو انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان معاشرتی دباؤ بڑھاسکتے ہیں جس کا ان حکومتوں کیلئے سامنا کرنا دشوار ہوسکتا ہے۔

پاکستان مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکہ ایک طرف اگر بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو ہمیں اس لحاظ سے بھارت پر فوقیت حاصل ہے کہ یہ صرف ہم نہیں کہتے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے بلکہ مظلوم کشمیری بھارتی فوج کی گولیاں کھا کر اور موت کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں اور جب شہید ہوتے ہیں تو انہیں دفن بھی پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کرکیا جاتا ہے جو مودی حکومت کو آئینہ دکھانے سے کم نہیں۔

ان تمام تر حقائق کے باوجود پاکستان کے مؤقف پر دنیا کا ردعمل مدہم ہے، پاکستان کو مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اپنی معاشی طاقت اوراپنے گھر کو بھی مضبوط بنانا ہوگا۔ توقع یہ ہے کہ بی آر آئی منصوبے اور سی پیک سے تمام تر جغرافیائی سیاسی صورتحال بدل جائے گی اور خطے پر امریکا کی اجارہ داری کا سورج غروب ہوتا نظر آئے گا۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک چین کے ساتھ منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر مختص کر رہے ہیں۔

یہ خلیجی ممالک اور سعودی عرب چین کی مدد سے شام اور ایران کے درمیان ثالثی بھی کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکہ کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان کی پوزیشن ابھی مکمل طور پر طے نہیں ہوئی ہے لیکن اس کی توجہ اقتصادی طور پر ترقی کرنے اور چین اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے پر مرکوز ہے۔

پاکستان کو اپنی معاشی صورتحال میں تبدیلی در تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے۔پھر بھی پاکستان بعض شعبوں میں اچھی طرح ترقی کر رہا ہے، خاص طور پر فوج میں، جہاں اس کا جھکاؤ چینی اور روسی آلات و ساز وسامان کی طرف ہے۔

پاکستان تمام ممالک کے ساتھ اس وقت تک دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے جب تک کہ پاکستان اور اس کے عظیم دوست چین کے مفادات کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

پاکستان کی توجہ اپنے آپ کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط بنانے پر مرکوز ہے تاہم ہم کشمیر سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سرگرم عمل بھی ہیں۔ تاہم جی 20 اجلاس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ انسداد دہشت گردی کے غلط قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کی پہچان بن چکی ہیں۔ انسانی حقوق کے ساتھ آپریشنل مسائل جن کا انسانی حقوق کونسل نے ذکر کیا ہے۔ سفارتی تعلقات کو متاثر کرنے والے قانونی مسائل کے معاشی اور سیاسی اثرات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

ضروری ہے کہ پاکستان روس کے ساتھ تعلقات اور چین کے ساتھ دیرینہ دوستی پر توجہ دے۔ عالمی منظر نامے میں دو بلاکس کا ابھرنا واضح ہوتا جارہا ہے۔بھارت نے امریکہ کے ساتھ دفاعی اور ٹیکنالوجی کے معاہدوں پر دستخط کرکے اپنی پوزیشن کا اعلان کردیا ہے۔ تجارت کے معاملے میں چین بھارت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

بھارت کی اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی اور ناروا سلوک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بہیمانہ ظلم و تشدد اور قتل و غارت کا ذمہ دار ہے اور مودی حکومت بھارت میں اپنے ہی شہروں میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ذمہ دار ہے بلکہ ہندوتوا کے یہ پیروکار تو ذات پات کے نام پر اپنے ہی دلت ہندوؤں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں۔

بھارت میں غربت کو نئے چہروں اور بل بورڈز کے پیچھے چھپایا جا رہا ہے۔ضروری ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کیلئے سفارتی سطح پر چابک دستی اور بہترین حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے اقدامات اٹھائے، جیسا کہ جی 20 اجلاس کے موقع پر بھارت نے کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت آمد کے موقعے پر تو انسانی حقوق کا نام تک نہ لیا اور پھر ویتنام میں جا کر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مودی سے ملاقات کے دوران انسانی حقوق پر اپنی تشویش ظاہر کردی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنے بیانیہ میں جوبائیڈن کے اس بیان کا کہیں تذکرہ نہیں کیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا منظرنامہ بھی سامنے آرہا ہے کہ چین جی 20 ممالک سے الگ ہوسکتا ہے کیونکہ بلاکس بن رہے ہیں اور صف بندیاں ہورہی ہیں اور جس طریقے سے اسٹرنگ آف پرل کے مقابلے میں اسٹرنگ آف الائنس موجود ہے جس کے تحت ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جو ”تم ادھر اور ہم ادھر“ کی پالیسی کو فروغ دیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

جی 20 ممالک کا جی ڈی پی عالمی جی ڈی پی کا 85 فیصد اورجس کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی بنتی ہے جہاں دنیا کی تمام تر تجارت کا 75 فیصد حصہ موجود ہے اور جس میں دنیا کے 6 ایٹمی ممالک بھی شامل ہیں جن میں سے اگر چین اور روس کو نکال دیا جائے تب بھی 4 ایٹمی ممالک بچ جائیں گے۔

اگر ہم جی 20 ممالک کے اور جی 7 کے ماضی کے اعلامیے نکال کر دیکھیں تو ان میں چین کے حوالے سے کافی مماثلت نظر آتی ہے جس سے امریکا چین دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ چین کے بی آر آئی منصوبے کا 148 ممالک حصہ بن چکے ہیں۔

امریکی صدر نے اپنے کاریڈور منصوبے کے متعلق کہا کہ میں کانگریس سے بات کرکے اس میں 25 ارب ڈالر ڈالنے کی کوشش کروں گا تاہم اس تمام تر منظر نامے میں پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک جو امریکا اور چین کی لڑائی میں براہِ راست شریک نہیں ان کو اہم کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے یا کرنے پر مجبور ہیں، وہ اپنا اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں کیونکہ ممالک کے مابین خارجہ پالیسی کا بنیادی مرکز کوئی اصول یا نظریہ نہیں بلکہ مفادات ہوا کرتے ہیں۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین اور امریکا کی سفارتی محاذ پر جاری رسہ کشی میں مغرب کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے جس میں ہم اوکاس اور کوارڈ کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ اس وقت سمندر(انڈین پیسفک اوشن) سے لے کر خلا تک جو عسکری صف بندیاں اور محاذ آرائیاں جاری ہیں وہ کسی اچھی بات کا شاخسانہ قرار نہیں دی جاسکتیں تاہم جب تمام تر منصوبہ بندیوں کے نتیجے میں دنیا کی معیشتوں کا دھارا تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت بھی اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جی 20 اجلاس کے موجودہ اور گزشتہ یعنی کل 2اعلامیے ملا کر دیکھ لیے جائیں اور مغرب اور چین کے مابین کھلا تصادم شروع ہوسکتا ہے جس کی حقیقی صورتحال وقت آنے پر ہی واضح ہوسکتی ہے کہ کس کا پلڑا بھاری رہے گا اور کون کس حد تک سیاسی یا عسکری ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔

وطنِ عزیز کے ہمسایہ ملک بھارت کی بات کی جائے تو اس کے افکار و کردار میں ہمیشہ سے فرق ، اختلاف بلکہ تضاد ہی رہا ہے کیونکہ ایک جانب جی 20 کی تھیم رکھیے تو دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کا غیر انسانی سلوک جس پر مودی حکومت آنکھیں بند کیے رکھتی ہے، یہ تمام تر عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔

جی 20 کو اقوامِ متحدہ کے چیپٹر 8 کے تحت بنایا گیا جسے اقوامِ متحدہ چارٹر کی پاسداری کرنا ہوگی ہے جسے نظر انداز کردیا گیا۔ صرف جی 20 ہی نہیں بلکہ یورپی یونین، جی 7 اور نیٹو ممالک کو دیکھا جائے تو یہ سب کے سب چائنہ کنٹینمنٹ پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔

یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ نریندر مودی حکومت آئندہ برس 2024ء کے عام انتخابات کیلئے شدت پسندی کو ہی اپنا ہتھیار بنائے ہوئے ہے۔ بی جے پی کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کی ہندوتوا پالیسی کا نفاذ خطے کیلئے کوئی نئی بات نہیں رہی جس کیلئے مسلمانوں پر ہجوموں کے حملے، گھروں کی مسماری اور جائیدادوں سے بے دخلی سمیت دیگر حربے آزمائے جارہے ہیں ۔

بھارتی مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ان کے آباو اجداد کا بھارت میں رہ جانا واقعی کوئی درست فیصلہ تھا یا نہیں؟ کیونکہ مودی کی ہندوتوا نے از خود دو قومی نظرئیے کو کم و بیش 76سال بعد ایک بار پھر سچا ثابت کردیا ہے جبکہ امریکا انتہائی دوغلے پن کے ساتھ بھارت کا ساتھ دے رہا ہے کیونکہ اسے چین کی پیش قدمی ہر قیمت پر روکنی ہے۔

بھارتی تجزیہ کاروں بشمول پروفیسر اشوک کا کہنا ہے کہ میں نےسوچا نہیں تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اتنے بزدل ہوں گے۔ دراصل یہ امریکا کی چائنہ کنٹینمنٹ پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئےامریکا اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں مصروف ہے جو اس کے خیال میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و عسکری قوت کو روکنے میں مضمر ہے ۔

وقت ثابت کرے گا کہ امریکا بہادر کی یہ پالیسی غلط تھی اور بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانےکیلئے جو احمقانہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں عالمی معاہدے اور ہتھیاروں کی فراہمی وغیرہ شامل ہے، اگر اس آگ سے خاکم بدہن جنوبی ایشیا جلتا ہے تو اس کی چنگاریوں سے امریکا اور مغربی ممالک بھی اپنا دامن بچا نہیں سکیں گے۔

Related Posts