فرانسیسی صدر کے بیانات، مسلم اُمہ کا رد عمل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اس چیز سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے اور اس کی ایک تازہ مثال فرانسیسی صدر کے اسلام سے متعلق بیانات ہیں، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، کسی ملک کے صدر کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ ملک کے عوام کے درمیان مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے، بلکہ اسے ملک کے عوام کو متحد رکھنے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ مگر آج فرانسیسی صدر کے تعصب سے بھرپور عمل کے بعد مسلم دنیا ایک بار پھر صدمے کی کیفیت میں مبتلا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل بھی فرانس اور سوئیڈن توہین رسالتؐ کی گئی، جس کا شدید رد عمل بھی سامنے آیا، اگر فرانس کی حکومت اس سارے معاملے کو لے کر سنجیدہ ہوتی تو اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوتے، مگر اب تو فرانس کے صدر کی حرکت کے بعد ہر مسلمان کا دل دکھی ہے، ہر مسلمان کا دل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار ہے۔ اور یہ مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، مسلم اُمہ کو اس سارے معاملے پر سخت قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ دوبارہ کوئی اس طرح کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی فرانسیسی صدر کے بیانات سے متعلق سخت رد عمل دیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں انتہا پسندوں کو موقع فراہم کرنے کے بجائے مرہم رکھ سکتے تھے، یہ بدقسمتی ہے کہ انھوں نے اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کا انتخاب کیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ فرانسیسی صدر نے تشدد کی راہ اپنانے والے دہشت گردوں، چاہے وہ مسلمان ہوں، سفید فام نسل پرست، یا نازی نظریات کے حامی، اُن پر حملہ کرنے کے بجائے اسلام پر حملہ کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک اچھے رہنما کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد کرتا ہے جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے کیا۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی صدر کو دماغی علاج کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ فرانس میں مسلمانوں کے دلی جذبات کے خلاف گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو فروغ دیا جارہا ہے جس پر ترکی سمیت دْنیا بھر کے مسلمان شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانسیسی ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ میکرون نامی اِس شخص کو مسلمانوں اور اسلام سے آخر کیا مسئلہ ہے؟ میکرون کو دماغی سطح پر علاج کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب فرانس نے اپنے صدر کے خلاف بیان پراپنے سفیر کو ترکی سے واپس بلا لیاہے۔ اس سارے معاملے پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی قوتوں کو چاہئے کہ فرانس اور سوئیڈن کو پابند کریں کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ ملک کا سربراہ ہی جب اس طرح کا رویہ اختیار کرے گا، تو معاملات بہتری کی جانب بڑھنے کے بجائے خرابی کی طرف جائیں گے۔

Related Posts