فارن فنڈنگ کیس اپوزیشن کا نیا حربہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے مظاہروں اور استعفوں کا حربہ کارگر ثابت نہ ہونے پرسربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کیخلاف فارن فنڈنگ کیس کو تختہ مشق بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے 19جنوری کوالیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرنیکا اعلان کیا ہے۔ سربراہ پی ڈی ایم نے حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ الزام لگایا ہے کہ فارن فنڈنگ میں سب سے زیادہ پیسا اسرائیل سے آیا ۔

پاکستان تحریک انصاف کیخلاف 2014ء میں الیکشن کمیشن میں آنیوالا فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے ہی ایک منحرف رہنماء اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا ، اکبر ایس بابر نے الزام لگایا کہ تحریکِ انصاف میں اندرونی مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں جن کا انسداد ضروری ہے۔

الیکشن کمیشن نے چھان بین کی تو تحریک انصاف کے 23 اکاؤنٹس سامنے آئے اور اس حوالے سے اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے صرف 5 اکاؤنٹس ڈکلیئر کئے ہیں اور 18 اکاؤنٹس مخفی رکھے گئے اور انہیں 18 اکاؤنٹس میں بیرون ممالک سے پیسہ جمع کرنا کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے اب تک اپوزیشن جماعتیں کسی نہ کسی طرح حکومت گرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں، پہلے مرحلے میں بھرپور احتجاج کیا گیا اور روایات کے برعکس اداروں اور شخصیات کا نام لیکر تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اپوزیشن ووٹ چوری کے حوالے سے الزامات کے جواب میں کوئی خاطر خواہ شواہد سامنے نہیں لاسکی اور اسمبلیوں سے استعفوں کی بیل بھی منڈیر نہ چڑھنے کے بعد اب فارن فنڈنگ کیس کا حربہ استعمال کا اعلان کیا ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اسکے صرف 5 اکاؤنٹس ہیں باقی 18 اکاؤنٹس مقامی تنظیموں اور ہنماؤں نے انتخابی مہم کیلئے کھلوائے جن کا پارٹی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ سیاسی پارٹیز آرڈر 2002ء کی دفعہ 13 کے تحت الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ضروری ہے جس میں سیاسی پارٹیوں کو کوئی رقم کہاں سے حاصل ہوئی، اثاثہ جات کیا ہیں اور ان پر قرض اور واجبات کی تمام تر تفصیلات شامل ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر یہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا جاتا ہے، یا ان پر غلط بیانی کی جاتی ہے۔ہر جماعت پارٹی کے سربراہ پر یہ لازم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تمام تر مالی تفصیلات کے حوالے سے ایک سرٹیفکیٹ جمع کروائے جس میں تصدیق کی جائے کہ فراہم کردہ معلومات درست ہیں۔

پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق 15 کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا ڈیکلریشن جاری کرے جسے غیر ملکی فنڈز دئیے جاتے ہوں یا وہ پاکستان کے خلاف اقدامات بشمول دہشت گردی یا انتشار پھیلانے میں مصروف ہو۔

پی ٹی آئی کیخلاف فارن فنڈنگ کیس مختلف وجوہات کی بناء پر 6 سال سے زیر التواء ہے اور بالفرض محال کیس مزید التواء کا شکار ہوتا ہے تو اپوزیشن کیا نیا حربہ استعمال کریگی اور اگر کیس کا فیصلہ آبھی جاتا ہے اور ممنوعہ فنڈنگ سامنے آتی ہے تو معاملہ وفاقی حکومت سے ایک ڈیکلریشن کے بعد سپریم کورٹ جائیگا اور یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ جماعت کی تحلیل ضروری ہے یا نہیں ۔

تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تو نہیں ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں اپوزیشن کو کوئی زیادہ کامیابی حاصل ہوگی اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے بعد اپوزیشن حکومت کو کمزور کرنے کیا کونسا نیا حربہ استعمال کریگی۔

Related Posts