بڑھتی ہوئی مہنگائی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مہنگائی کے جس طوفان کی بات ہم عرصہ دراز سے کر رہے ہیں، اس نے پاکستان میں عوام چیخیں نکال دی ہیں، لوگوں کو اب اپنے گھر والوں کے لیے روٹی کا حصول بھی مشکل ہورہا ہے، اس سال، خاص طور پر، بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کئی دہائیوں کی بلند ترین افراط زر دیکھی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اس سال مون سون کے سیلاب نے کھڑی فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا ہے جس کی وجہ سے سبزیوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔اس کے بعد حکومت کو افغانستان اور ایران سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کرنا پڑی۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے بعد اس سال کے شروع میں بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے نے بھی مہنگائی کے دباؤ میں حصہ ڈالا ہے۔

خوراک کی برآمدات اور درآمدات طویل عرصے سے فیصلہ سازی میں تاخیر نے بھی ماحول پر کافی گہرا اثر ڈالا ہے، گزشتہ کئی مہینوں کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، گزشتہ سال جون سے سالانہ افراط زر 20 فیصد سے اوپر رہا۔اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کا معاہدہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے لیکن آئی ایم ایف کا پاکستان کو قرضہ دینے کا ارادہ نہیں لگ رہا۔ کیونکہ وہ پہلے دوست ممالک سے فنانسنگ کے وعدے پورے کرنے پر زور دے رہا ہے۔

موجودہ حکومت نے حال ہی میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بین الاقوامی قرض دہندہ کو مطمئن کرنے کے لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دوست ممالک سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے۔

اسلام آباد سعودی عرب اور چین سے 2 بلین ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے 1 بلین ڈالر کی توقع کر رہا ہے۔ مہنگائی سے نمٹنے کا واحد راستہ اب زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا ہے تاکہ زرمبادلہ کے مقابلے میں کمزور ہوتے روپے کو مستحکم کیا جا سکے لیکن حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ کب تک معیشت کو قرضوں پر بچایا جائے گا۔ ملک کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مکمل منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔

Related Posts