بالآخر سچ سامنے آگیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

میں یہ بات گذشتہ 5 سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کے اردگر د موجود جہانگیر ترین اور دیگر افراد بدعنوان ہیں لیکن کچھ لوگوں نے جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کا سخت دفاع کیا جیسے وہ پاکستان میں سب سے زیادہ اچھی شہرت کے مالک ہوں۔

یہاں تک کہ عمران خان نے ہر فورم پر ان کا دفاع کیا، سپریم کورٹ کی جانب سے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کے باوجود اس کے بعد بھی جب ایس ای سی پی نے ان پر جعلسازی کے الزامات عائد کیے اور نیب نے جہانگیر ترین کے ساتھ سودے بازی کی ، یہ سب باتیں عمران خان کے سامنے تھیں جس کے باوجود وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین کو سرکاری میٹنگز میں اپنے ساتھ رکھا اور کئی میٹنگز کی سربراہی بھی جہانگیر ترین نے کی۔

عمران خان نے جہانگیر ترین کو انتخابات سے قبل الیکٹ ایبلز کو ہائی جیک کرنے کے لئے استعمال کیا اور حکومت کی تشکیل کے لئے آزاد منتخب ایم پی اے اورایم این ایز کو حکومت کا حصہ بنانے کیلئے استعمال کیاجس کے عوض جہانگیر ترین کو پیسہ کمانے کے لئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ وزراء اور سیکریٹریوں نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ نہ صرف عمران خان نے برآمدات کی اجازت دی بلکہ شوگر انڈسٹری کو سبسڈی دی ، یہ کام اس وقت کیا گیا جب وہ حج اور بجلی وغیرہ پر سبسڈی دینے سے انکار کررہے تھے کہ حکومت کے پاس رقم نہیں ہے جس سے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار دونوں وزراء نے زیادہ تر فائدہ اٹھایا۔

پھر وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو قلت کی وجہ سے افراط زر سے فائدہ اٹھانے دیا اور دوبارہ پاکستان میں چینی کی درآمد کی اجازت دے کر انہیں فائدہ پہنچایا اورجہانگیر ترین کو لاکھوں مالیت کے یوٹیلیٹی کارپوریشن سپلائی ٹینڈر سے نوازا گیا تھا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس نے فیصلہ کیا کہ شوگر اور آٹے کے بحرانوں سے متعلق ایف آئی اے رپورٹ لیک کریں جو مہینوں سے عمران خان کی میزپر رکھی ہوئی تھی۔

ایف آئی اے کی انکوائری کی کھوج کے بارے میں سبھی جانتے تھے ، میڈیا نے بتایا کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار اہم مجرم ہیں ، میڈیا کو دھمکی دی گئی ، اس کی اطلاع دہندگان کو قانونی نوٹسز بھی دیئے گئے ، اینکرز کو میڈیا ہاؤسز نے برطرف کردیا اور جنہوں نے جھکنے سے انکار کردیا ان کو گرفتار کر لیا گیا اور غیر ثابت شدہ الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔

آخر کار 4 اپریل 2020 کو اصل رپورٹ میڈیا کے سامنے آگئی۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے رپورٹ عام کرنے کے دعویٰ کے 24 گھنٹے میں یہ بات سامنے آگئی کہ رپورٹ عام نہیں کی گئی بلکہ لیک ہوئی ہے، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے رپورٹ منظر عام پرآنے کے بعد ذمہ داری قبول کرنا انتہائی نامناسب عمل تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے نمائشی طور پر کابینہ میں ردوبدل کردیا ،رپورٹ میں ذمہ داری وزراء کو نئے قلمدان دیئے گئے اور جہانگیر ترین کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جو ان کے پاس کبھی تھاہی نہیں جبکہ برآمدات کی اجازت دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ، سبسڈی کی منظوری دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔

پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا پررپورٹ کو شائع کرنے میں کامیابی کا دعویٰ کیاجارہا ہے اور غیرمعمولی کارروائی قرار دیا جارہاہے جبکہ حقیقت میں نہ تو حکومت کی طرف سے رپورٹ شائع کی گئی اور نہ ہی ابھی تک کوئی کارروائی کی گئی ہے۔

جہانگیر ترین نے گذشتہ شام ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی کی پوری مہم جھوٹ تھی ، پی ٹی آئی بہت سے انتخابی حلقوں میں بری طرح شکست کھا چکی تھی ، بیشتر امیدوار چوتھی یا پانچویں پوزیشن پر تھے ، مقابلہ قریب ہی نہیں تھا ۔اس کے بعد انہوں نے ہارس ٹریڈنگ اور پی ٹی آئی کو نام نہادالیکٹ ایبلزکو پارٹی میں شامل کرنے کا ذمہ لیا ۔

میں ٹھیک 7 سال سے یہی کہہ رہا ہوں، 2013 میں کچھ حلقوں میںبہت ہی محدود دھاندلی نہ کہ بڑے پیمانے پر قومی نتائج کو تبدیل کیاگیا، دھاندلی کاعمران خان کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ تھا ، ایسا جھوٹ جس نے پاکستان کو بہت مشکل میں ڈال دیا ، 6 ماہ کے طویل دھرنے اور شہروں اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے ذریعے غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ اور معیشت کو تباہ کیا۔

عمران خان اقتدار میں رہنے کیلئے ضرورت پڑنے پر جہانگیر ترین کی قربانی دیں گے لیکن ان پیادوں کی قربانی دے کر خود کو ختم نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے حکومت قائم ہے، عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں ،اس لئے انہیں  اپنے اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنا چاہئے۔

Related Posts