پختہ کار، کہنہ مشق اور عہد ساز شاعر فیض احمد فیضؔ کی آج 37ویں برسی ہے لیکن آج بھی ان کی کتابیں دیکھ کر مداحوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ فیض احمد فیضؔ زندہ ہیں۔
اُردو شاعری میں فیض احمد فیضؔ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 13 فروری 1911ء کو پیدا ہونے والے فیض احمد فیضؔ 20 نومبر 1984ء میں اپنے مداحوں سے بچھڑ گئے، تاہم ان کے اشعار کی چاشنی آج تک کم نہ ہوسکی۔
ممتاز شاعر فیض احمد فیضؔ انجمنِ پسند مصنفین کے فعال رکن تھے جنہیں ان کی اشتراکیت پر مبنی فکر اور نظرئیے کے باعث حکومت کے ہاتھوں اسیری سمیت متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
فیض احمد فیضؔ اپنی انقلابی شاعری کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان کی شاعری پر پی ایچ ڈی مقالے لکھے گئے، تقریریں کی گئیں اور سیمینار اور مجالسِ علم و ادب آج تک جاری و ساری ہیں۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ کی طرح سیالکوٹ میں آنکھ کھولنے والے فیض احمد فیضؔ کی شاعری حکیم الامت سے حد درجہ مختلف تھی، تاہم انقلاب پسندی اور میدانِ عمل میں اترنے کا جو جذبہ اقبالؔ کی فکر میں نظر آتا ہے، فیضؔ نے اسے نئی زندگی بخشی ہے۔
انہوں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ فلمی گیت، نظمیں اور ایسی غزلیں بھی کہیں جنہیں وقت کے نامور گلوکاروں نے اپنی گائیکی کا حصہ بنایا اور فیض احمد فیضؔ کی شہرت کو چار چاند لگادئیے۔
ملکۂ ترنم نور جہاں نے فیض احمد فیضؔ کی نظم ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ گائی جس کے بعد لوگ اس کے شاعر سے نظم سنانے کا کہتے تو فیضؔ جواب دیتے کہ اب یہ نظم ملکۂ ترنم سے ہی سنو۔ یہ ان کی ہوچکی ہے، میری نہیں رہی۔
مزید پڑھیں:اردو کے باکمال شاعر فیض احمد فیض کی سالگرہ اور شاعری کی امتیازی خصوصیات