اردو کے باکمال شاعر فیض احمد فیض کی سالگرہ اور شاعری کی امتیازی خصوصیات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اردو کے باکمال شاعر فیض احمد فیض کی سالگرہ اور شاعری کی امتیازی خصوصیات
اردو کے باکمال شاعر فیض احمد فیض کی سالگرہ اور شاعری کی امتیازی خصوصیات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں جہاں جہاں اردو شاعری کے قدردان موجود ہیں، وہاں اردو زبان کے باکمال شاعر فیض احمد فیض کو یاد کیا جارہا ہے کیونکہ 13 فروری 1911ء فیض احمد فیض کا یومِ پیدائش اور آج فیض کی 110ویں سالگرہ ہے۔

شاعری کے ناقدین کی اکثریت مرزا غالب کو اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر مانتی ہے، علامہ اقبال کو پاکستان کا قومی شاعر ہونے کی حیثیت سے دیگر شعراء پر استثنیٰ حاصل ہے جبکہ میر تقی میر کے بعد شاعری کے 4 میناروں کا تذکرہ آتا ہے۔

فانی بدایونی، جگر مراد آبادی، اصغر گونڈوی اور حسرت موہانی نے ترقی پسند شاعری کو ابلاغ اور ندرتِ بیان کے اعلیٰ ترین معیارات پر پہنچا دیا تاہم قیامِ پاکستان کے بعد جن شعراء کے نام سامنے آئے ان میں فیض احمد فیض کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔

اردو شاعری میں فیض احمد فیض کا رتبہ

ترقی پسند شاعری کے جن 4 میناروں کا ہم نے ذکر کیا، بعض مکاتبِ فکر انہیں فیض سے تاریخی اعتبار سے پہلے ہونے کی وجہ سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں تاہم فیض کے مداح اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک فیض احمد فیض اردو شاعری کے ایک نئے دبستان کے بانی ہیں۔ فیض نے ترقی پسند اردو شاعری کو عالمی شناخت عطا کی۔

شاعرانہ قدروقیمت کے اعتبار سے فیض احمد فیض کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شعراء کے ساتھ لیا جانا ان کا سرمایۂ افتخار ہے۔ ابھی فیض احمد فیض زندہ تھے کہ ان کی شاعری سرحدیں، زبانیں، نظریات اور عقائد کی حدیں پھلانگ کر عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا چکی تھی۔

شاعری کی اہم خصوصیات 

ملکی و قومی معاملات اور سیاست فیض احمد فیض کی شاعری کا ایک اہم جزو ہے جس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے انقلابی گیت لکھے، حسن و عشق کے دلنواز نغمے تحریر کیے اور اپنے دور کے جبر و استحصال کے خلاف ایک توانا آواز بلند کی۔

رجائیت سے مراد امید ہے جس کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کی شاعری کا اہم عنصر غنائیت بھی ہے یعنی قافیوں اور ردیف کے استعمال سے ایک ایسی فضا پیدا کرنا کہ قاری اس میں کھو کر رہ جائے۔ فیض کی شاعری کو عوام اپنے ضمیر کی آواز سمجھتے تھے اور یہ اعزاز آج بھی برقرار ہے۔

ایک طرف فیض احمد فیض اپنے بعض خواب بیان کرتے ہیں اور کچھ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور دوسری جانب وہ امید اور محرومی کے اظہار سے ایک الگ فضا قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے فیض کی شاعری میں ایک عجیب سی گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ 

حالاتِ زندگی 

فیض احمد فیض 13 فروری 1912ء کے روز نارووال کی بستی کالا قادر کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے جو آج کل فیض نگر کہلاتی ہے۔ فیض کے والد سلطان خان پیشہ ور وکیل تھے۔ قرآن کے 2 پارے حفظ کرنے کے بعد فیض نے فارسی، عربی اور انگریزی پر عبور حاصل کیا۔

یہی نہیں، بلکہ فیض احمد فیض نے انگریزی اور عربی میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں اور گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی اور فلسفے کی تعلیم بھی حاصل کی۔ یہاں معروف مزاح نگار پطرس بخاری اور اردو زبان کے اہم شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم فیض احمد فیض کے استاد رہے۔

سن 1935ء میں فیض احمد فیض امرتسر میں لیکچرر مقرر ہوئے اور محمڈن اورینٹل کالج میں تعلیم دینے لگے۔ یہاں محمد دین تاثیر، صاحبزادہ محمود الظفر، سجاد ظہیر اور احمد علی جیسے دانشور اور ادیب فیض احمد فیض کے رفیق رہے۔

چھ سال بعد یعنی 1941ء میں فیض احمد فیض نے سری نگر میں ایلس کیتھرین جارج سے شادی کی جو محمد دین تاثیر کی اہلیہ کی ہمشیرہ تھیں۔ یہ خاتون 16 برس کی عمر سے برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہی تھیں۔

قیامِ پاکستان کے سال 1947ء میں فیض میاں افتخار الدین کے اصرار پر پاکستان ٹائمز میں مدیر بنے جو انہی کا اخبار تھا جبکہ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض گرفتار ہو گئے۔ 

راولپنڈی سازش کیس کیا ہے؟

حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش پر فیض احمد فیض کو گرفتار کیا گیا۔ اس دور میں شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کا جھکاؤ امریکا کی طرف تھا اور مقبوضہ کشمیر کا حصول مشکل سے مشکل تر ہو رہا تھا۔ اس دور میں فوج کے بہت سے افسران لیاقت علی خان کے خلاف ہوچکے تھے۔

پھر 23 فروری 1951ء کو اکبر خان جو فیض کے افسرِ اعلیٰ تھے، ان کے گھر پر ایک میٹنگ میں کئی فوجی افسران نے شرکت کی جن میں سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ یہاں ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے جسے ناقابلِ عمل بھی کہا گیا اور مسترد بھی کیا گیا تاہم کسی شخص نے یہ تجویز جنرل ایوب خان کے کان میں ڈال دی۔

جنرل ایوب خان کے احکامات پر میٹنگ کے شرکاء بغاوت کے الزام میں گرفتار ہو گئے اور فیض احمد فیض نے بھی پاکستان کی مختلف جیلوں میں اسیری کی حالت میں 5 سال گزار دئیے اور پھر 1955ء میں فیض احمد فیض کی سزا معاف ہوگئی۔

کمیونزم اور دوبارہ گرفتاری 

رہائی کے بعد فیض احمد فیض برطانوی دارالحکومت لندن جا پہنچے جس کے بعد 1958ء میں وطن واپسی ہوئی۔ اسکندر مرزا حکومت کمیونسٹ مواد شائع اور تقسیم کرنے پر فیض احمد فیض سے نالاں تھی کیونکہ پاکستان تو اسلامی جمہوریہ تھا جہاں واحد نظامِ حکومت جمہوریت تھا جو آج بھی ہے۔

خوش قسمتی سے پیپلز پارٹی کے بانی و قائد ذوالفقار علی بھٹو فیض کے مداح نکلے اور ان ہی کی کاوشوں کے نتیجے کے طور پر فیض 1960ء میں ایک بار پھر رہا ہوگئے۔ پہلے فیض ماسکو گئے اور پھر لندن جا پہنچے۔ 1962ء میں لینن امن انعام بھی حاصل کر لیا۔

عالمی شہرت 

لینن انعام حاصل ہونے کے بعد فیض احمد فیض کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ صرف پاکستان اور بھارت میں مشہور فیض احمد فیض سوویت بلاک کے ممالک سمیت دنیا کے ہر اس ملک میں اہم سمجھے جانے لگے جہاں اردو پڑھی اور بولی جاتی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ فیض احمد فیض نے اپنی قابلیت کا سکہ بٹھا دیا۔ انہوں نے کثرت سے غیر ملکی دورے کیے اور جگہ جگہ لیچرز دے کر دنیا کو اپنا پیغام پہنچایا۔ دنیا کی متعدد زبانوں میں فیض کی شاعری کے نہ صرف تراجم ہوئے بلکہ پی ایچ ڈی مقالوں کیلئے فیض کی شاعری کو اہم موضوع سمجھا جانے لگا۔

کراچی میں فیض احمد فیض نے 1964ء میں قیام کیا جب وہ وطن واپس آچکے تھے جہاں انہیں عبداللہ ہارون کالج کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فیض احمد فیض کو وزارتِ ثقافت میں نہ صرف مشیر کا اہم عہدہ دیا بلکہ کچھ اور بھی متعدد مناصب پر فائز کیا۔ 

بھٹو کی سزائے موت اور فیض احمد فیض کا انتقال 

سن 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور 1979ء میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد تو فیض پر پاکستان میں جیسے زمین ہی تنگ ہوچکی تھی۔

سخت نگرانی اور کڑے پہرے کے باوجود فیض احمد فیض پاکستان سے نکل کر بیروت جا پہنچے۔ یاسر عرفات سے فیض کی دوستی ہوا کرتی تھی۔ یہاں فیض کو سوویت امداد یافتہ رسالے لوٹس کا مدیر بنا دیا گیا۔ 1982ء میں فیض کی صحت خراب ہوئی اور لبنان جنگ کے باعث بھی فیض کو وطن واپس آنا پڑ گیا۔

دمہ اور لو بلڈ پریشر کے باعث فیض احمد فیض جنہیں 1964ء میں ادب کا نوبل پرائز دینے کیلئے نامزد کیا گیا، وہ کسی فیصلے سے قبل ہی 20 نومبر 1984ء کو انتقال کر گئے۔ ان کی ایک نظم، اِس مضمون کے اختتام میں بطور یادگار پیشِ خدمت ہے:

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم

نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے

تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی

تیری زلفوں کی مستی برستی رہی

تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم

ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم

اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم

ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی

تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی

کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے

ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم

جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

Related Posts