متوقع عام انتخابات اور حقائق کی سنگینی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمہوریت کا مطلب ہی عوام کی خدمت ہے جس کیلئے عام انتخابات کلیدی حیثیت کے حامل ہیں اور دنیا بھر کے جمہوری ممالک کو اگر جمہوری طرزِ حکمرانی سے مسائل درپیش ہوتے ہیں تو ان کا حل بھی جمہوری طریقے سے تلاش کیا جاتا ہے۔

مثلاً اگر کوئی بات موضوعِ بحث بنائی جائے تو ہر شخص کی الگ الگ رائے سامنے آتی ہے ، جیسا کہ ہم قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں دیکھتے ہیں تاہم اسی اختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں بھی جمہوریت کے باعث بہت سی مسائل نے جنم لیا جن میں بدعنوانی، موروثی سیاست اور معاشی بحران شامل ہیں اور ملکی معیشت تو اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جس کیلئے تقریباً 136ارب ڈالر بیرونی قرض کی ادائیگی بے حد مشکل دکھائی دیتی ہے جبکہ اندرونی قرض کی بات کی جائے تو ہم 60 ہزار ارب روپے کے مقروض ہیں اور قومی سلامتی کا دارومدار بھی معیشت پر ہی ہوا کرتا ہے، اس لیے معاشی استحکام ضروری ہے۔

تاہم بد ترین طرزِ حکمرانی کے باعث معیشت کسی طور بحالی کے راستے پر گامزن ہوتی دکھائی نہیں دیتی، اسی لیے عسکری قیادت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کو قائم کیا تاکہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل نہ ہو۔ متحدہ عرب امارات میں بحیثیت سفیر ملک کیلئے خدمات کی انجام دہی کے دوران متعدد مرتبہ حکمرانوں سے یہ شکایات سننے کو ملیں کہ ہم پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو2درجن کے قریب اداروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جس طرح عسکری قیادت کو شامل کرنا پڑا، کیونکہ غیر معمولی حالات کے تحت ایس آئی ایف سی کا قیام عمل میں لانا لازم سمجھا گیا، بالکل اسی طرح غیر معمولی حالات کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ دئیے جانے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے بھرپور انتخابی مہم کے باوجود عام انتخابات کے بارے میں عوام الناس میں کسی نہ کسی سطح پر احتمال پایاجاتا ہے جبکہ اگر عالمی سطح پر مختلف واقعات کے باعث معیشت پر رونما ہونے والے اثرات کی بات کی جائے تو ہم یوکرین روس جنگ کے اثرات سے ہی نہیں نکل سکے۔

روس یوکرین جنگ کے بعد اگلا واقعہ رونما ہوچکا ہے جو اسرائیل حماس جنگ ہے جو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے اور جس کے نتیجے میں کم و بیش 15ہزار فلسطینی شہید ہوئے جن میں ہزاروں خواتین اور بچے شامل ہیں۔حال ہی میں غزہ میں کچھ وقت کیلئے جنگ بندی ہوئی جس کا وقت ختم ہونے پر مزید 2 دن کی توسیع کردی گئی اور دونوں جانب سے یرغمالیوں کو رہا کیا جارہا ہے، تاہم دونوں فریقین) کی جانب سے جنگ اور قتل و غارت کے باعث عالمی معیشت سکتے کی سی کیفیت میں ہے۔

صیہونی حکومت کا ماننا یہ ہے کہ جیسے ہی جنگ بندی کی مدت ختم ہوئی، اس کے بعد شدید حملے کیے جائیں گے جبکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے علاوہ لبنان اور دیگر قریبی ممالک کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ جنگ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو اس کے اثرات و مضمرات اور معاشی بحران کا بھی ہمیں ہی سامنا کرنا ہوگا۔ کسی بھی قسم کے معاشی بحران کی صورت میں پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں اور دوست ممالک کی جانب دیکھنے لگتا ہے۔

عالمی سطح پر جمہوریت کی پٹڑی سے اتر جانے والے ممالک کی امداد کرنا انتہائی مشکل امر ہے، اس لیے پاکستان بھی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہے جس کی جگہ ایک بار پھر آمریت یا عسکری حکمرانی لانے کی صورت میں معاشی تباہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی رسہ کشی عروج پر ہے۔ انتخابات کے انعقاد کی صورت میں سیاسی دنگل کے نتیجے میں کوئی بھی پارٹی میدان مارنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔

ایسے میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کاوشیں تیز کرنا بھی اس جانب اشارہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اعتماد نہیں کہ یہ پارٹی پنجاب یا وفاق میں قابلِ قدر نشستیں جیت سکے گی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ مانگی جارہی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں بھی اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہیں، سو آئندہ عام انتخابات کا نتیجہ ایک بار پھر ایک مخلوط حکومت کی صورت میں نکلنے کے زیادہ امکانات ہیں۔

اگرچہ 2023 کے انڈیکس میں پاکستان کو دنیا کی 152ویں آزاد ترین معیشت قرار دیا اور ہمارا معاشی آزادی کا اسکور 49.4 ہے تاہم ہمارا سرکاری قرض قومی جی ڈی پی کا 74.9فیصد بنتا ہے جو کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں جبکہ عام انتخابات کی تیاری کرنے والی سیاسی جماعتیں یہ بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس ملک کے تمام معاشی مسائل کا حل موجود ہے، لیکن وہ حل کیا ہے؟ ایسا کیا پلان ہے جو تمام معاشی مسائل ختم کردے گا اور بقول خواجہ آصف ملکی معیشت چلے گی نہیں، بلکہ دوڑے گی؟

بالفرض اگر عام انتخابات میں اگر کسی وجہ سے التواء آجاتا ہے تو اس کے جمہوریت پر تو بلاشبہ منفی اثرات مرتب ہوں گے، تاہم ایس آئی ایف سی کے قیام اور عسکری قیادت کی شمولیت سے معاشی مسائل کے حل کی راہ  میں تعطل کا امکان نہیں۔

Related Posts