رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ترک صدر رجب طیب اردوان دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ اور اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ یہ دورہ بہت اہمیت کاحامل ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کڑا امتحان ہےجوسعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو غیر یقینی صورتحال میں بدل سکتا ہے۔

عمران خان، اردوان اور مہاتیر محمد کو مسلم دنیا کے اہم قائدین کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن جب ان ممالک نے مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ہاتھ ملایا توچند ممالک خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے سخت مزاحمت کی گئی۔ مشرق وسطی کے متعدد ممالک کے دباؤ کےسبب پاکستان نے مہاتیر محمد کی سربراہی میں ہونے والے کے ایل سمٹ سے دستبرداری اختیار کی۔

وزیراعظم عمران خان یہ کہنے پر مجبور ہوئے مشرق وسطیٰ کے ممالک غلط فہمی کا شکار ہیں کہ کے ایل سمٹ کاانعقاد اوآئی سی کے متبادل کے طور پرکیا جارہا ہے اور اس سے مسلم دنیا تقسیم ہوجائے گی۔ وزیر اعظم گذشتہ ماہ ملائیشیا گئے تھے جہاں خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے ان حالات کی وضاحت کی جس کی وجہ سے وہ کانفرنس سے دور رہے۔طیب اردوان نے سب سے پہلے انکشاف کیا تھا کہ سعودی دباؤ کی وجہ سے پاکستان نے کے ایل سمٹ میں شرکت نہیں کی۔ترکی کے صدر کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اب مستحکم ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی رجب طیب اردوان پاکستان کےاچھے دوست رہے ہیں۔توقع ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے ، اور وہ پہلے غیر ملکی رہنما بنیں گے جنہوں نے6 مرتبہ پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔پاکستانی شہریوں کو ترکی میں اچھا مقام حاصل ہے جہاں وہ روزگار اور تعلیم حاصل کررہے ہیں۔توقع ہے کہ کراچی میں ترک قونصل خانہ اس خطے کا سب سے بڑا ترک مشن بن جائے گا۔ اس سے ترکی کے ساتھ سیاحت اور تجارت میں اضافہ ہوگا جب کہ دونوں ممالک جلد ہی دوہری ممالک کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔

رجب طیب اردوان ترکی کا خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔ ترکی نے کردوں کے خلاف شام میں جارحیت کا آغاز کیا لیکن اب یہ بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ شام کی افواج نے ترک افواج پر حملہ کیا ہے اور اردوان نے بدلہ لینے کااعلان کیا ہے۔ ترکی نے لیبیا میں فوجیوں کو بھیجنے کی منظوری دے دی ہے تاکہ وہاں کمزور ہوتی قومی اتحاد کی حکومت کومدد فراہم کی جائے۔ دوسری جانب پاکستان معاشی اور سیاسی محاذ پر مختلف مسائل سے دوچار ہے۔

پاکستان مسلم ممالک کے اتحادیوں کو کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ کسی کے کہنے پر تعلقات معطل کرسکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھ کر تمام دوست ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ خوش آئند ہے کہ اردوان نے ایسے موقع پر پاکستان کا دورہ کیا ہے جب پاکستان مسئلہ کشمیرپر خصوصاً سعودی عرب کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔

Related Posts