معاشی ابتری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

2024 کا آغاز ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب رواں مالی سال (2023-24) کے دوران تقریباً 22 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کو بڑا چیلنج درپیش ہے، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر قرض کی واپسی کا طریقہ ہنوز غیر یقینی کی دھند میں ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ ڈیفالٹ کی تلوار تا حال پاکستان کے سر سے نہیں ٹلی ہے۔

پاکستان کا مالیاتی منظر نامہ خاصا پریشان کن ہے۔ 9 جون 2023 کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں 2023-24 کا بجٹ پیش کیا، جس میں 14.4 ٹریلین روپے (تقریباً 50.5 بلین ڈالر) کا بجٹ ظاہر کیا گیا۔ اس رقم میں سے نصف یعنی 7.3 ٹریلین روپے، قرض کی واپسی کے لیے مختص کیے گئے، جس کے بعد پاکستان کے آپریشنل اخراجات پورے کرنے کے لیے 7.1 ٹریلین روپے بچ جاتے ہیں۔

بجٹ میں افراط زر 21 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا، مگر حقیقی حالات ان تخمینوں سے بڑھ کر سنگین ظاہر ہوئے۔ مہنگائی اگست 2023 میں 27 فیصد سے بڑھنا شروع ہوئی، جو ستمبر 2023 تک 31 فیصد تک پہنچ گئی۔ دسمبر 2023 میں، پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (وفاقی ادارہ شماریات) کے  اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2022 کے مقابلے میں مہنگائی تقریباً 29 فیصد زیادہ رہی۔ اس کی وجہ ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ رہی، جو مجموعی طور پر عوام کو مہنگائی کا غسل دینے میں ایک اہم محرک ہے۔

بدقسمتی سے معاشی بحران کے دوران 2023-24 کے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کو ترجیح دی گئی۔ ساتھ ہی دفاعی اخراجات میں 15.5 فیصد اضافہ ہوا، جو 1.8 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد بنتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ ہوا۔ زمینی حقائق کے منافی یہ بجٹ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو ہی بڑھاوا دینے کا شاہکار ہے، یہ اخراجات واضح کرتے ہیں کہ ان کا بوجھ عوام پر ہی پڑنا ہے جبکہ فائدہ امیروں کی ہی جھولی میں گرے گا۔

اس معاشی پس منظر میں حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ بات چیت کی۔ آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے لیے پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 3.7 بلین ڈالر حاصل کیے اور چین سے تقریباً 4 بلین ڈالر کا رول اوور قرضہ حاصل کیا۔ ان اقدامات سے آخرکار آئی ایم ایف کا رانجھا مان تو گیا مگر اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا معاشی استحکام کس قدر غیر ملکوں پر منحصر ہوکر رہ گیا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے پائیدار آمدنی پیدا کرنے کے بجائے قرضوں کے حصول پر زیادہ توجہ دی ہے، یہ ڈیفالٹ سے بچنے کی بہت ہی نامعقول کوشش ہے، اس سے محض دفع وقتی ہی ہوسکتی ہے، بنیادی مسائل کبھی نہیں حل ہوسکتے۔ اس کے بجائے ملک کے معاشی مسائل غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے اور پائیدار وسائل ترقی پر انحصار سے ہی حل ہوں گے۔قرض گیری سے وقتی طور پر ملک پر سے ڈیفالٹ کا خطرہ بھلے ٹل بھی جاتا ہو، سارا بوجھ غریب کے کندھے پر ہی آتا ہے۔ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟

ہمارے برعکس چین نے کارپوریٹ فارمنگ کا طریق کار اپنایا ہے اور زرعی شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے اپنی زمینیں کھول دی ہیں۔ پاکستان کو اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرنے اور علامتی معاہدوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے پیمانے پر برآمدی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ نوجوانوں کو چھوٹے صنعتی یونٹس قائم کرنے کی ترغیب دینا، اس مقصد کیلئے نوجوانوں کو تربیت اور بنیادی وسائل فراہم کرنا جیسے منصوبے بنانے ہوں گے، اسی طریقے سے ہم قرض گیری کے بجائے خود انحصاری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

Related Posts