…تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اس وقت دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم آزادئ اظہارِ رائے کے مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہماری محبوب حکومت نے گزشتہ ہفتے پیکا ترمیمی آرڈیننس (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز) میں ترامیم کے بعد صدر مملکت کے دستخط کرواکے عوام پر ایک نئی تلوار لٹکا دی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے نئی ترامیم کے مطابق اب شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی کوبھی شامل کرلیا گیا ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کر دی گئی ہے۔

صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔

یہ تو ہوئے اس آرڈیننس کے چیدہ چیدہ نکات ، جہاں تک آرڈیننس کا تعلق ہے تو قانون اور آرڈیننس دو مختلف چیزیں ہیں ۔ قانون ایک مستقل شکل ہے جبکہ آرڈیننس ایک مخصوص مدت تک کارآمد رہتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ موجودہ حکومت نے اپنے قیام سے اب تک زیادہ ترمعاملات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کے بجائے آرڈیننسزکے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی۔

یہ درست ہے کہ بعض معاملات میں فوری فیصلے کے تحت آرڈیننس کا اجراء کیا جاسکتا ہے لیکن ناقص عقل یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر حکومت کو ایسی کونسی ایمرجنسی صورتحال کا سامنا تھا کہ ایک پہلے سے موجود قانون میں ترامیم کیلئے پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس کا سہارالیاگیا۔

زبان بندی کا یہ قانون تحریک انصاف نے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بنایا گیا اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ن لیگ اب عدالتوں میں اسی قانون کو چیلنج کررہی ہے۔ ن لیگ کی کرتا دھرتا مریم نوازبھی اس قانون پر تنقید کررہی ہیں جبکہ یہ قانون خود ان کی حکومت میں بنایا گیا جب مریم نواز پی ایم ایل کے ساتھ حکومتی میڈیا کو بھی کنٹرول کرتی تھیں، اِس سے قطعِ نظر کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے اس قانون کو مزید چٹ پٹا بنادیا ہے۔

جہاں تک عزت کی بات ہے تو وہ سب کی برابر ہے، کسی بھی شخص کو دوسرے کی عزت پر کیچڑاچھالنے کا کوئی حق نہیں ہے، کوئی عام آدمی ہویاخاص، ادارہ ہویا اہم شخصیت ، کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کی ذات پر بے بنیاد الزامات لگائے یاکردار کشی کرے۔

آج مسلم لیگ (ن) پیکا آرڈیننس پر معترض ہے لیکن کل جب اقتدار میں تھے تو ان سے بھی تنقید برداشت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ سچ ہے کہ کنٹینر زپر انتہائی نازیبا زبان کا استعمال کیا گیا لیکن اگر کسی کو یاد ہوتو معترضین نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ جو کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

سندھ کی بیٹی کو انتہائی نازیبا القابات سے نوازا گیا، لوگ کہتے ہیں کہ ن لیگ نے بی بی شہید کی نازیبا تصاویر تک ہیلی کاپٹروں سے پھنکوائیں کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا اس لئے بی بی نازیبا تصاویر وائرل کرنے کیلئے ہیلی کاپٹرز کا سہارا لینا گیا۔ جلسوں میں انتہائی گھٹیا انداز میں بی بی شہید کا ذکر کیا جاتا تھا لیکن پیپلزپارٹی نے کبھی اس زبان کا استعمال نہیں کیا۔

ن لیگ کے مقابلے پر پی ٹی آئی نے نازیبا زبان کے استعمال کو مزید تقویت دی اور کنٹینر پر چڑھ کر انتہائی سستی اور نازیبا زبان کے استعمال کی نئی تاریخ رقم کی اور آج بھی وزیراعظم کے عہدے پر پہنچنے والے عمران خان کبھی مولانا فضل الرحمان کیلئے نازیبا زبان کا استعمال کررہے ہوتے ہیں تو کبھی سرکاری تقریبات میں بلاول بھٹو کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست سے شائستگی اور اخلاقیات کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بہتان تراشی، نازیبا زبان کے استعمال اور کردار کشی کے حوالے سے اپنا الگ الگ ماضی رکھتی ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ زبان بندی بھی یہی دونوں جماعتیں چاہتی ہیں۔

جہاں تک غلط معلومات پھیلانے کا تعلق ہے تو اس میں بھی اس وقت اگر سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا ہی سوشل میڈیا سب سے زیادہ غلط معلومات پھیلارہا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں آرڈیننس کے حوالے سے سماعت جاری ہے تاہم چیف جسٹس نے ن لیگ کو پارلیمنٹ جانے کا مشورہ دیا ہے ۔

اس قانون کی زد میں سیاستدانوں کا تو علم نہیں لیکن صحافی اور سوشل میڈیا بلاگر ضرور آئینگے تاہم اگر وزیراعظم عمران خان کو یاد ہو کہ کنٹینر کے زمانے میں ٹی وی چینلزان کی گھنٹوں کی تقاریر براہ راست دکھاتے رہے ہیں اور اگر کردار کشی اور اداروں پر الزام تراشی کو ضابطہ قانون میں لانے سے پہلے عمران خان اپنی پرانی تقاریر دیکھ لیں تو شاید انہیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوجائے۔

Related Posts