ٹرمپ کی نااہلی،  امریکی جمہوریت  اور غزہ کے حالات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی آئین کی چودھویں ترمیم میں نااہلی کی شق کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاستِ کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے اس وقت نااہل قرار دے دیا جب ڈونلڈ ٹرمپ بھرپور صدارتی انتخابی مہم کے ساتھ امریکا کا اگلا صدر بننے کیلئے پر تولتے نظر آرہے تھے جس سے امریکی سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔

دلچسپ طور پر امریکا کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ وہ واحد سابق صدر ہیں جنہیں آئندہ صدارتی انتخابات کیلئے نااہل قرار دیا گیا ہو، پاکستانی سیاست کے اسرار و رموز سے واقف اورعالمی سیاست سے نابلد بعض قارئین کیلئے عرض کرتے چلیں کہ  پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان وہ واحد شخص ہیں جنہیں تحریکِ عدم اعتماد لا کر وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا گیا جو ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔

کچھ اسی طرح ٹرمپ کے خلاف بھی بظاہر ایسا شائبہ ہوتا ہے کہ جوبائیڈن حکومت نے آئینی وار کرنے کا پینترا آزمایا، تاہم امریکا میں عدالتی و قانونی اور عوام کوانصاف کی فراہمی کا نظام  پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے مقابلے میں کافی جدید ہے ، تفتیش کے جدید ترین طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے اسے عصری تقاضوں سے کافی حد تک ہم آہنگ کردیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا تھا جس کی پاداش میں کولوراڈو سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں ٹرمپ کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل حملے اور ریاست سے بغاوت کیلئے اُکسایا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہمیں ٹرمپ کی نااہلی پر عوامی ردِ عمل کی پروا نہیں ہے۔ ہم نے صرف قانون اور انصاف کے تقاضوں کودیکھتے ہوئے اپنا مینڈیٹ پورا کیا۔

عالمی سطح پر لبرل جمہوریت میں امریکا کو دنیا کا پہلا ترقی یافتہ ترین ملک سمجھا جاتا ہے اور امریکا میں اس قسم کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد دنیا کی دیگر لبرل جمہوری حکومتیں ہونے کی دعویدار ریاستوں میں بھی اس کے اثرات مرتب ہونے  کا شائبہ ہے۔ ٹرمپ کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے اس قسم کا فیصلہ آمریت کے نفاذ سے کم نہیں۔

کولوراڈو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابق امریکی صدر ٹرمپ کو اپیل کا حق بھی حاصل ہے  اور توقع یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ امریکی سپریم کورٹ سے ٹرمپ کو شاید ریلیف بھی مل جائے تاہم اس موقعے پر غور طلب بات یہ ہے کہ حکمراں سیاسی جماعت ڈیموکریٹس ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت اور قد کاٹھ سےکس حد تک خوفزدہ ہے اور فیصلے پر عوام کا ردِ عمل کیا آتا ہے۔

مقبولیت کے گراف کی بات کی جائے تو امریکی عوام میں جوبائیڈن کی مقبولیت 40فیصد سےبھی نیچے گر چکی ہے اور محسوس ایساہوتا ہے کہ صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جوبائیڈن کے مقابلے میں مشرقی دنیا ایک متعصب اور مسلم کش سابق امریکی صدر سمجھتی ہے جس نے اسلام مخالف پالیسیاں اپنائیں اور کھل کر اسلاموفوبیا کا ساتھ بھی دیا۔

ایک جانب تو ٹرمپ کے خلاف فیصلہ آنے کے باعث امریکا میں سیاسی بحران عروج پر ہے تو عالمی سطح پر جب بھی سلامتی کونسل میں غزہ میں اسرائیل حماس جنگ بندی کی قرارداد پیش کی جاتی ہے، امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے جبکہ خود امریکی عوام بھی غزہ میں سیز فائر کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں اور جلوس نکال چکے ہیں، ہر بار ویٹو کے موقعے پر امریکہ کی جوبائیڈن حکومت کی مقبولیت کم ہوجاتی ہے۔

جنرل اسمبلی میں جب غزہ کے حق میں قرارداد منظور ہوئی تو پہلے اس کے حق میں 125 ممالک کے ووٹ آئے جبکہ دوسری بار 153ممالک نے سیز فائر کے حق میں ووٹ دیا، اس لیے یہ واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت سمیت دنیا کی اکثریتی آبادی غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری اور اس سے اب تک ہونے والے جانی نقصان کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔

غزہ میں 20 ہزار فلسطینی شہید ہوئے جن میں ہزاروں خواتین اور بچے شامل ہیں، ہزاروں فلسطینی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر آئے دن اسرائیلی جارحیت کے جواب میں نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ بھارت اور مغربی ممالک سے بھی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں جو امریکا کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کرنے والی جوبائیڈن حکومت کو آئینہ دکھانے کیلئے کافی ہے۔

جمعہ کے روز بھی متحدہ عرب امارات نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے حق میں قرارداد پیش کی جس پر امریکا نے اعتراض کیا کہ جنگ بندی کے الفاظ کا استعمال درست نہیں، الفاظ تبدیل کریں، جوبائیدن کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا جنگ بندی کی بجائے ماضی قریب کی طرح صرف جنگ میں وقفہ چاہتا ہے، جس کے بعد دوبارہ اسرائیل کی تازہ دم فوج مظلوم فلسطینیوں کا قتلِ عام شروع کردے۔

ایک بار پھر اگر ہم ٹرمپ کی بات کریں تو ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاست دان ہے اور اس قسم کے سیاستدانوں کو کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ پسند نہیں کرتی، جب انہیں کوئی مشورہ دیا جاتا ہے تو اس پر عمل کرنے کی بجائے ٹرمپ اپنی مرضی کا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اس قسم کا سیاستدان عوام کو پسند آتا ہے، خاص طور پر متعصب سفید فاموں میں ٹرمپ کی مقبولیت زیادہ ہے۔

پاکستانی میڈیا  کی جانب سے قیاس آرائیوں کے پیشِ نظر پاکستان کا عام آدمی امریکا میں صدر تبدیل ہونے کی خبر سامنے آنے پر نئے صدر سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کرلیتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی عمران خان سے ملاقاتیں ہوں یا جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد پاکستان سے تعلقات گہر ے ہونے کے بلند بانگ دعوے، تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا جیسے ملک میں صدور کے چہرے تو بدل جاتے ہیں، پالیسیاں جوں کی توں رہتی ہیں۔

کچھ ایسا ہی ٹرمپ اور جوبائیڈن کے ادوار میں بھی ہوا اور تلخ، مگر حقیقت پر مبنی بات یہ ہوگی کہ ہم آئندہ آنے والے امریکا کے صدر سے چاہے وہ جوبائیڈن ہوں، ٹرمپ یا کوئی اور،پاکستان اور غزہ کے معاملے میں زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں اور اگر قیاس آرائیاں بھی کی جائیں تو وہ حقائق سے ہم آہنگ ہونی چاہئیں۔ 

Related Posts