قوم کی شہید بیٹی کی برسی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کچھ لوگ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں، کچھ کو عظمت کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے اور کچھ عظمت دوسروں کو منتقل کرتے ہیں جبکہ بے نظیر بھٹو یہ تینوں اوصاف رکھنے والی منفرد شخصیت تھیں۔ آج پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر ناقابلِ فراموش اثرات ڈالنے والی بے نظیر بھٹو شہید کی 13ویں برسی منائی جارہی ہے۔

سن 1988ء میں جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں تو وہ لافانی ہو گئیں، صرف 35 برس کی عمر میں بے نظیر بھٹو نے ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کا حلف اٹھایا اور ہر قسم کے تعصب کو مسترد کیا۔ یہ ایک بے حد بڑی ذمہ داری تھی جس کا ذکر انہوں نے اپنی سوانح عمری قوم کی بیٹی (ڈاٹر آف نیشن) میں کیا ہے۔

فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان برسوں تک وحشیانہ آمریت کا شکار رہا۔ اسی دور میں بے نظیر بھٹو وہ عظمت حاصل کرنا چاہتی تھیں جو سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے انہیں حاصل ہونی چاہئے تھی۔ ملک کی پہلی جمہوری طور پر منتخب کردہ وزیرِ اعظم بن کر بے نظیر بھٹو نے اپنے وجود کا احساس دلایا۔ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی حکومت ختم ہونے کے فوراً بعد ہی سیاست میں داخل ہو گئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے پی پی پی کی باگ ڈور سنبھالی اور تحریکِ بحالئ جمہوریت کا بیڑہ اٹھایا جو تاریخ کی سب سے بڑی جمہوریت نواز تحریک سمجھی جاتی ہے۔

آمر حکومت نے پی پی پی کے تمام سینئر رہنما گرفتار کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا اور ہزاروں پیپلز پارٹی کارکنان پر تشدد کیا گیا۔ خود بے نظیر بھٹو کو سکھر کی سی کلاس جیل میں رکھا گیا اور 1 سال تک انہوں نے نظر بندی سہی۔ 1984ء میں بے نظیر کو خود ساختہ جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی تاہم حکومت کے خلاف ان کی تحریک جاری رہی۔ 2 سال بعد جب بے نظیر بھٹو واپس لوٹیں تو ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ 17 اگست کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو بہاولپور کے نزدیک حادثہ پیش آیا اور وہ چل بسے جس سے پاکستانی تاریخ کا ایک تاریک باب ختم ہوگیا۔

اسی سال یعنی 1988ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی عوام کے ووٹوں سے برسرِ اقتدار آئی جس کا مسلم دنیا پر اثر پڑا کیونکہ علمائے سو نے یہ تبلیغ کی کہ عورت کا کردار گھر کی چار دیواری کے پیچھے ہوتا ہے جو بے نظیر نے مسترد کردیا۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ میں سیاسی اختلافات کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں لیکن جب کوئی یہ کہے کہ کوئی آپ کو مرد کے کردار میں پسند نہیں کرتا تو آپ کو اس سے نمٹنا پڑتا ہے۔

پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا اس وقت ایک نیا دور دیکھ رہی تھی جہاں صنفی مساوات کا خواب شرمندۂ تعبیر ہورہا تھا۔

بلاشبہ جمہوریت کا بیج تو بویا جاچکا تھا تاہم اس کی پرورش اور سیاسی نظام کی نشوونما ابھی باقی تھی۔ بہت طویل سفر طے کرنا تھا لیکن بے نظیر زیادہ عرصے تک اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ سکیں۔ 2 سال بعد صدرغلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برخاست کردی۔ جنرل ضیاء کا سیاسی صاحبزادہ کہلانے والے بے نظیر کے حریف نواز شریف کا کردا اس میں بے حد اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ سیاسی جھگڑا 1999ء تک چلتا رہا جب ایک اور آمر نے برسرِ اقتدار آ کر دونوں ہی رہنماؤں کو تقریباً 1 دہائی تک ایک بار پھر جلاوطنی پر مجبور کردیا۔

ہماری مقدس کتاب مسلمانوں کو ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔ پاکستان میں جابرانہ استبداد اگرچہ طویل عرصے سے مستحکم ہے تاہم یہ ظلم و جبر اس جذبے کے مقابلے میں ہمیشہ پستی کا شکار رہا جو بے نظیر جیسے رہنماؤں کا خاصہ رہا ہے۔ 18 اکتوبر کے روز بے نظیر پاکستان لوٹ آئیں۔ اب پاکستان ایک مختلف ملک تھا جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد مذہبی انتہا پسندی بھی پھل پھول چکی تھی اور 27 دسمبر 2007ء کے روز محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا۔

بے نظیر بھٹو کا جداگانہ نعرہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، ملک کے بڑے مفاد میں ہے کیونکہ شہید بی بی نے کبھی انتقامی سیاست کا سہارا نہیں لیا بلکہ وہ ایک مساوات پر مبنی معاشرے پر یقین رکھتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت بے نظیر شہید کی میراث کو کس طرح سہارا دے سکے گی، اس پر بحث ہوسکتی ہے تاہم بے نظیر بھٹو آج بھی لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں قوم کی شہید بیٹی کے طور پر زندہ ہیں۔ 

Related Posts