کراچی میں خطرناک عمارتوں کا معاملہ توجہ کا متقاضی ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی کے علاقے لیاری میں رہائشی عمارت کا منہدم ہونا کوئی نیاواقعہ نہیں ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں اس طرح کے تین واقعات ہوچکے ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور واقعات کے ذمہ داران کا تعین ہونا چاہیے۔

لیاری میں گرنے والی اس عمارت کو تین ماہ قبل رہنے کے لئے غیر محفوظ قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس عمارت کو خالی کروانے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی گئی نہ ہی عمارت کی شہری سہولیات منقطع ہو ئیں اور یہاں تک کہ رہائشی عمارت گرنے تک وہاں مقیم رہے کیونکہ لیاری جیسے غریب محلوں کے رہائشیوں کے پاس رہائشی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے خطرناک عمارتوں میں رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا گیا ہے لیکن اب صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔ شہر میں ہزاروں عمارتیں رہائش کے لئے غیر محفوظ ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کی جارہی جس کی سب سے بڑی ذمہ داری ایس بی سی اے پر عائد ہوتی ہے جوکہ غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے کے حوالے سے مشہور ہے۔

سپریم کورٹ نے نوٹس لیا لیکن اعلیٰ عدالت کی ہدایت پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ در حقیقت سپریم کورٹ کے احکامات نے ایس بی سی اے کے افسران کو ایک نیا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ عمارت کو غیر محفوظ قرار دینے کے بہانے زیادہ رشوت وصول کریں۔

ایس بی سی اے نے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کراچی میں اونچی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی ہے اور تجاوزات اور سرکاری اراضی پر ناجائز قبضوں کے پیچھے بھی ایس بی سی اے کا ہی ہاتھ ہے۔

یہ پرانی ، خستہ حال عمارتوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ناقص تعمیرات یا ناقص میٹریل کی وجہ سے نئی بھی عمارتیں گرنے کا خطرہ ہے۔ یہ زیادہ تر ان بدعنوان ٹھیکیداروں کی وجہ سے ہے جنہوں نے زیادہ منافع کمانے کے لئے کیلئے ناقص میٹریل کا استعمال کیا اور اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے شہریوں کو زندگی کی جمع پونجی سے محروم کردیا۔

سندھ حکومت سمیت کسی اتھارٹی نے شہر میں سرگرم مافیا کیخلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے شہر میں غیر قانونی عمارتیں بنانے کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے اور یہ عمارتیں ایک ٹائم بم کی طرح عوام کے سروں پر ایک خطرہ بن کر موجود ہیں جن کے گرنے سے مزید کئی قیمتیں زندگیاں  بے ایمان عناصر کے لالچکی بھینٹ چڑھ سکتی ہیں۔

Related Posts