سی آئی اے چیف کا دورہ پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکا افغانستان سے انخلاء کیساتھ اب بھی اس خطے میں قیام کے خواہاں ہیں اور امریکیوں کی نگاہیں پاکستان کی طرف لگی ہیں۔

امریکی میڈیا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے بعداب سرکاری عہدیداروں نے بھی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیمز برنس نے حال ہی میں اسلام آباد کا ایک خفیہ دورہ کیا۔سی آئی اے کے سربراہ نے دونوں ممالک کے مابین انسداد دہشت گردی کے تعاون کے بارے میں اعلیٰ فوجی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔

امریکا افغانستان سے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد ایسے اڈوں کی تلاش میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جہاں وہ افغانستان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرسکے۔ جب یہ دورہ کیا گیا تو کسی بھی طرف سے قطعی طور پر کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ اپریل کے آخر میں ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ پاکستان نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ امریکی ہوائی اڈوں کی میزبانی کرے گاجس کی حکومت نے سختی سے تردید کی ہے۔

مئی کے آخر میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اپنے ہم منصب جیک سلیوان سے ملنے کے لئے جنیوا روانہ ہوئے اور تعاون کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا تاہم بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سربراہان حکومت کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں آئندہ کی کارروائیوں کے لئے ڈرون اڈوں کی میزبانی کرنے سے انکار کردیا ہے۔

امریکا افغانستان سے نکلنے کے بعد اپنی مطابقت برقرار رکھنا چاہتا ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ امریکا افغانستان سے انخلاء کے باوجود خود کو چین سے دور نہیں رکھ سکتا لیکن پاکستان کی جانب سے اس تعطل کو اب ایک ’’ نہیں ‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔

پاکستان کی جانب سے امریکا کو فوجی اڈے دینے کی تاریخ ہے،1960ء کی دہائی کے دوران پاکستان نے پشاور کے قریب بڈابیر اڈے سے انکار کردیاتھاجبکہ مشرف حکومت نے بلوچستان میں ائیر بیس دیئے جو 2011 تک امریکا کے کنٹرول میں رہے اور ابھی انکار پاکستان کے لئے مزید عالمی دباؤ کا سبب سکتا ہے۔

پاکستان کو امریکا کو فوجی اڈہ دینے کے بجائے ، افغانستان میں امن کی کوششوں کے لئے کام کرنا چاہئے جبکہ مطالبہ کی تعمیل کی جاتی ہے تو پاکستان ممکنہ مراعات حاصل کرسکتا ہے جبکہ پاک امریکا روابط کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ آئی ایم ایف نے وفاقی بجٹ کے لئے معاشی مراعات کی اجازت دی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تعاون تو ضرور ہورہا ہے اوراب پاکستان کو نتیجے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

Related Posts