وزیر اعلیٰ کی حلف برداری، حمزہ شہباز کے سامنے بڑے چیلنجز کیا ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیر اعلیٰ کی حلف برداری، حمزہ شہباز کے سامنے بڑے چیلنجز کیا ہیں؟
وزیر اعلیٰ کی حلف برداری، حمزہ شہباز کے سامنے بڑے چیلنجز کیا ہیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز نے آج وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے، دوسری جانب مستعفی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی گورنر کی جانب سے استعفیٰ مسترد کیے جانے کے بعد پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی جو ان کے بقول گورنر کے فیصلے کے باعث بحال ہو گئی تھی۔

یہ کچھ سال پہلے کی نہیں، بلکہ اسی سال اور اسی مہینے کی بات ہے جب ایک وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا کر انہیں ہٹایا گیا اور پھر شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ آج حلف اٹھانے کی سعادت وزیر اعظم کے صاحبزادے کے حصے میں آئی ہے، تاہم دونوں تاریخی تقریبات پر پی ٹی آئی کی جانب سے غیر آئینی ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔

 اگر تو پی ٹی آئی کا دعویٰ درست ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ کیونکہ وزیر اعظم کے نام تحریر کیا جانا ایک غیر آئینی عمل تھا، اس لیے استعفے کی کوئی حیثیت نہیں، ایسی صورت میں عثمان بزدار تاحال وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔ دوسری جانب حمزہ شہباز  لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر حلف اٹھا کر وزیرا علیٰ بنے ہیں۔سوال یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کیلئے چیلنجز کیا ہیں؟ 

عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ گزشتہ ماہ 28 مارچ کے روز سابق وزیر اعظم عمران خان کو پیش کیا تھا۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ اگلے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ہوں گے۔سابق وزیر اعظم نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔ 

حمزہ شہباز کا انتخاب

اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کو سابق حکمراں جماعت پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی، تاہم انتخاب کے وقت جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان گروپ نے حمزہ شہباز کی حمایت کی۔ 16 اپریل کو حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔

پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران حمزہ شہباز کو 197 اراکین کے ووٹ ملے۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے بائیکاٹ کے باعث ووٹنگ مکمل طور پر یکطرفہ رہی تاہم گورنر عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے انکار کے بعد حلف برداری کی تقریب  جلد نہ ہوسکی۔ 

لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور گورنر 

آ ج سے 3 روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ کو 28 اپریل تک حمزہ شہباز سے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ اگر گورنر حلف نہیں لینا چاہتے تو کسی اور کو نامزد کیا جاسکتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر حمزہ شہباز کی تقریبِ حلف برداری 14 روز تک تعطل کا شکار رہی۔ اس سے قبل 22 اپریل کو بھی لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ گورنر کو کسی صوبے کے نومنتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کا اختیار نہیں، تاہم گورنر عمر سرفراز چیمہ نے عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے 28 اپریل کو بھی حمزہ شہباز سے حلف نہیں لیا۔ 

گورنر کی جگہ اسپیکر قومی اسمبلی 

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے گورنر کے عدالتی حکم کے باوجود حلف نہ لینے پر اپنا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ اشرف 30 اپریل کو حمزہ شہباز سے حلف لیں۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں صدرِ مملکت اور گورنر پنجاب کو اپنی حلف لینے یا حلف برداری کیلئے نمائندہ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری کا احساس متعدد مرتبہ دلایا۔ 

قانون کیا کہتا ہے؟ 

غور کیا جائے تو سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے 28 مارچ کو استعفیٰ دیا اور آج 30 اپریل کے روز حمزہ شہباز نے اسی عہدے کا حلف اٹھایا ہے، گویا ایک ماہ سے زائد وقت تک صوبہ پنجاب میں حکومت کسی انتظامی سربراہ کے بغیر رہی۔

عدلیہ اور مقننہ ریاست کے بڑے ستونوں میں شامل ہیں جبکہ عدالت اس وقت تک مقننہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، جب تک کہ سیاستدان اسے مجبور نہ کریں۔ حلف برداری سے انکار کے بعد خود سیاستدانوں نے ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔

حمزہ شہباز کیلئے بڑے چیلنجز 

تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ حمزہ شہباز کو غیرقانونی طورپر وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے، دوسری جانب ساڑھے 3سال تک وزیر اعلیٰ رہنے والے عثمان بزدار عوام میں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے۔ حمزہ شہباز کیلئے بڑا چیلنج ڈیڑھ سالہ دورِ اقتدار میں اپنے آپ کو آئینی وزیر اعلیٰ ثابت کرنا اور عوام دوست اقدامات اٹھا کر مقبولیت حاصل کرنا ہے۔ 

حمزہ شہباز اس وقت وزیر اعلیٰ بنے جب ان کے والد ملک کے وزیر اعظم ہیں، ایسے میں حمزہ شہباز کی کارکردگی کو مزید تنقیدی نظر سے بھی دیکھا جائے گا۔ ماضی میں ان کے والد شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر لاہور سمیت صوبے بھر کیلئے فقید المثال ترقیاتی کام کیا۔ حمزہ شہباز کو ثابت کرنا ہوگا کہ ایک وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ اپنے والد کے ہم پلہ یا پھر ان سے بہتر کام کرسکتے ہیں۔ 

Related Posts