سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے پہلے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیٹ ایڈجسٹمنٹ دو یا دو سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے مابین کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور بعض اوقات حلقوں کی بندر بانٹ کو بھی کہا جاتا ہے۔

گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک خبر کے مطابق ایم کیو ایم کے بعد ن لیگی قیادت نے جے یو آئی (ف) کے ساتھ بھی ملاقات اور ورکنگ ریلیشن شپ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت  کا فیصلہ ہوا جبکہ ن لیگ عام انتخابات اور سندھ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششیں تیز کرچکی ہے۔

قبل ازیں ن لیگی قیادت نے متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس کے بعد عام انتخابات میں ایک دوسرے کی حمایت اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات پر دونوں ہی پارٹیوں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے جس سے باہمی اتحاد کا تصور چکنا چور ہوگیا۔

ن لیگ کو بلوچستان میں سیاسی محاذ پر کامیابی بھی ملی جب جام کمال سمیت متعدد سیاسی رہنما مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تاہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور الیکٹ ایبلز کو اکٹھا کرنا ہی جمہوری عمل کی تکمیل کا نام نہیں ہے۔

جمہوری عمل تو یہ ہے کہ عوام اپنی مرضی سے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیں اور جب وہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچیں تو اپنے وزیر اعظم اور صدرِ مملکت سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز ہونے والے افراد کا انتخاب کریں۔

یہاں یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت کسی بھی ایسی سیاسی پارٹی کو کبھی پیش نہیں آتی جو بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی و سینیٹ میں جا بیٹھے بلکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ”کمزور“ پارٹیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کوئی کمزور پارٹی تو نہیں ہے لیکن ان کی جانب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ایم کیو ایم اورجے یو آئی جیسی بظاہر چھوٹی جماعتوں سے ملاقاتیں شاید ایک عام انسان کی سمجھ میں نہ آسکیں کہ ن لیگ کو ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت کیوں ہے؟

ظاہر ہے کہ جو سیٹ آپ نے تاحال حاصل ہی نہیں کی، کیونکہ تاحال عام انتخابات تو منعقد ہوئے نہیں، نہ ہی عوام نے ووٹ ڈالے کہ کسی کو منتخب کیا جاسکے، تو ایسے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اصطلاح کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟

دراصل یہ تمام تر کوششیں اور کاوشیں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مل جل کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے حیلے بہانے ہیں۔ یعنی اگر عوام کی جانب سے ن لیگ، ایم کیو ایم یا جے یو آئی کو زیادہ ووٹ نہ دئیے جائیں تو یہ جماعتیں باہم جوڑ توڑ کرکے اپنی مرضی کا وزیر اعظم یا صدر لاسکیں۔

دوسری جانب عمران خان کو تاحال جیل سے رہائی نہیں مل سکی اور تحریکِ انصاف کو بلے کا نشان دینا ہو، عمران خان کا جیل کی بجائے عدالت میں ٹرائل ہو یا پھر انصاف کا کوئی اور تقاضا پورا کرنا ہو، ہر چیز التوا کا شکار نظر آتی ہے۔

دوسری جانب نواز شریف عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے والے سابق وزیر اعظم کے طور پر بھی پاکستان لوٹے تو ان کا شاندار استقبال ہوا اور پھولوں کے ہار نچھاور کیے گئے جس پر آج ن لیگ کی حلیف سیاسی جماعت پی پی پی بھی نالاں ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ فرسودہ سیاست کو دفن کرکے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے سیاست کے نئے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ آپ کسی شخص کو دوسری یا چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی بجائے مجھے ایک موقع دے کر دیکھیں۔

ویسے ایک موقع تو بلاول بھٹو زرداری کو اس وقت بھی ملا جب انہیں ملک کا کمسن ترین وزیرِ خارجہ بنا دیا گیا لیکن تاحال بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بننے کا موقع نہیں ملا اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت پی پی پی کی قیادت یہ موقع چاہتی ہے۔

ایک موقع تو عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی دیا جانا چاہئے تاہم تحریکِ انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ سے پہلے عام انتخابات کا مطالبہ کرتی نظر آئی اور اب جب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہورہی ہے تو پی ٹی آئی کہیں نہیں۔

Related Posts