بابراعظم قومی ٹیم کی قیادت کیلئے بہترین انتخاب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کرکٹ پاکستان کیلئے جنون کی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان میں مرد، خواتین، بچے، بوڑھے سبھی کرکٹ کے بخار میں مبتلا نظر آتے ہیں،مذہب اور قومی زبان کے علاوہ تیسری اہم ترین چیز کرکٹ ہی ہے جس نے پاکستانی قوم کو باہم مربوط اور جوڑ کر رکھا ہوا ہے اورپاکستان ٹیم نے دنیا کے ہر میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑھ کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

پاکستان کے عوام کرکٹ کا نام آتے ہی جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ پاکستان ٹیم کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی ٹیم کیخلاف کسی بھی طرح کی پرفارمنس دے سکتی ہے، پاکستان ٹیم بڑی سے بڑی مضبوط ٹیم کو زیر کرنے اور کمزور سے ٹیموں کیخلاف بدترین کھیل پیش کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

ٹیم کی کارکردگی کی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کا مزاج بھی نرالہ ہے، کبھی تو ڈومیسٹک میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالوں کو ٹیم میں بھی جگہ نہیں ملتی تو کبھی کسی بھی اوسط درجہ کے کھلاڑی کو اٹھاکر ٹیم میں شامل کرلیا جاتا ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم میں قیادت بھی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، عمران خان ،وسیم اکرم ،انضمام الحق اور یونس خان کے بعد قومی کرکٹ ٹیم مستقل کپتان کی تلاش میں ہے اور شاہد آفریدی، شعیب ملک، محمد حفیظ، سرفراز احمد اور اظہر علی کو ایک نہیں کئی کئی بار قیادت کے فرائض سونپے جاچکے ہیں کئی گزشتہ کئی سال سے پاکستان ٹیم کو کوئی مستقل کپتان میسر نہیں آسکا۔

پاکستان کرکٹ بورڈنے اس وقت دنیائے کرکٹ کے افق پر پاکستان کا نام روشن کرنیوالے بابر اعظم کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بابراعظم پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔

اس وقت اگر دیکھا جائے تو قومی ٹیم کے قائد بابر اعظم اپنی شاندار کارکردگی کی بنا پر ٹی ٹوئنٹی میں نمبر 2 اور ایک روزہ درجہ بندی میں تیسرے نمبر اور ٹیسٹ رینکنگ میں  پانچویں پوزیشن پر قابض ہیں اور بابر اعظم واحد پاکستانی بلے باز ہیں جو تینوں فارمیٹس میں عالمی درجہ بندی کی دس اولین پوزیشنز میں موجود ہیں جبکہ بابر اعظم کے علاوہ کوئی کھلاڑی کسی فارمیٹ کی ٹاپ ٹین فہرست میں شامل نہیں ہے۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بابر اعظم پر تینوں فارمیٹس کا بوجھ ڈالنے سے ان کی ذاتی کارکردگی متاثر ہوگی لیکن اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی، نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن اس وقت تینوں فارمیٹس میں اپنی ٹیموں کی قیادت کررہے ہیں جبکہ انگلینڈ کے جوئے روٹ اورآسٹریلیا کے ارون فنچ بھی قیادت کے بوجھ کے باوجود بہترین کھیل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

پاکستان کے پاس اس وقت کوئی ایسا نام نہیں ہے جس کو قیادت کیلئے منتخب کیا جاسکے، بابر اعظم نے 2015ء میں ایک روزہ میچوں سے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کے آغاز کے بعد محض پانچ سال کے عرصے میں پوری دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے گرویدہ بنالیا ہے جبکہ ان سے کئی سینئر کھلاڑی کئی کئی سال اور کچھ تو دو دہائیوں سے کھیلنے کے باوجود خود کو اہل ثابت نہیں کرسکے لیکن بابر اعظم نے اپنی مستقل مزاجی سے صرف 5 سال کے عرصے میں اپنا ایک الگ مقام بنالیا ہے ۔

تینوں فارمیٹس کی قیادت ملنے کے بعد بابر اعظم کو پریشر میں کھیل کے اسرار ورموز سیکھنا ہونگے، کس کھلاڑی کو کب کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے اور جذباتی ماحول میں مخالف ٹیم پر کیسے حملہ آور ہونا ہے یہ سب کچھ سیکھنا ضروری ہے کیونکہ آجکل کی تیزرفتار کرکٹ میں آپ کا ایک فیصلہ میچ میں ہار اور جیت کا سبب بن سکتا ہے اور بدقسمتی سے انہیں یہ تمام گر خود سیکھنا ہونگے کیونکہ قومی ٹیم میں ایسا کوئی کھلاڑی موجود نہیں ہے جو اپنے تجربات سے نوجوان بابر اعظم کو سکھاسکے۔

ایک کامیاب کپتان بننے کیلئے بابر اعظم کو ایک طویل سفر طے کرنا ہے، جس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میدان میں کب بولنا ہے اور کب نہیں بولنا مطلب کہ کس کھلاڑی کو کب کیا گائیڈ کرنا ہے اور کس غلطی کو نظر انداز کرنا ہے ، مخالف ٹیم پر کب پریشر ڈالنا ہے اور کس طرح اپنی ٹیم کو مخالف کے دباؤ سے نکالنا ہے، ہار کے بعد پریس کانفرنس میں صحافیوں کے تند وتیز سوالات کا سامنا کیسے کرنا ہے اور جیت کے بعد مین آف دی میچ بننے والے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کیسے کرنی ہے۔

آئندہ سال ورلڈکپ کا انعقاد ہونے جارہا ہے، بھارت میں منعقدہ اس عالمی کپ کیلئے ابھی سے تیاری کرنا ہوگی اور اس ایک سال میں آپ کے پاس تمام شعبوں میں بہترین کھلاڑی ہونا ضروری ہے ، اگر اندازا لگایا جائے تو ہم نے ماضی میں بہت کم دیکھا ہے کہ کوئی اچھا کھلاڑی اپنا بہتر متبادل دیکر گیا ہو۔

بابر اعظم خود تو اچھے کھلاڑی ہیں اور قومی ٹیم کے قائد بھی بن گئے ہیں، بابر اعظم کیلئے قومی ٹیم کی قیادت کے ساتھ ساتھ ایک بھی چیلنج ہے کہ وہ نئے کھلاڑیوں کو بھی تیار کریں تب ہی وہ اچھے کپتان کے طور پر یاد رکھے جائینگے۔

Related Posts