ایک اور سیاسی انتشار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں ایک بار پھر سخت سیاسی ہنگامہ آرائی کا امکان ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے بالآخر سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔

یہ کیس ایک سفارتی دستاویز سے متعلق ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی چارج شیٹ کے مطابق عمران خان نے بطور وزیر اعظم یہ سفارتی دستاویز وصول کرنے کے بعد واپس نہیں کی۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اس دستاویز یعنی سائفر میں امریکہ کی جانب سے عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے کی دھمکی دی گئی تھی۔

جیل ٹرائل سے لیکر اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے تک سائفر کیس نے کئی موڑ دیکھے، لیکن آخر کار پی ٹی آئی کے دونوں مرکزی رہنماؤں کو دس دس سال قید کی سزا سنا ہی دی گئی۔

یہ فیصلہ جس وقت سامنے آیا ہے، وہ بہت اہم ہے، افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ نواز شریف عام انتخابات سے قبل عمران خان کو سزا دلوانا چاہتے ہیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پی ٹی آئی کے وکلاء نے دفاع کا حق نہ ملنے کی شکایت کی اور کیس تقریبا یکطرفہ طور پر سرکار کے وکلاء کے رحم و کرم پر چلا گیا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے جیل ٹرائل کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ دراصل پی ٹی آئی میں دو گروپ موجود ہیں، ایک گروپ عمران خان کی سزا کو یقینی بنا کر ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسرا گروپ عمران خان کو لمبے عرصے کیلئے جیل میں رکھوا کر پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

اب پی ٹی آئی نے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انتخابات سر پر ہیں تو عمران خان کی جماعت اس صورتحال پر کیا ردعمل ظاہر کرے گی؟ بعض قانون سازوں اور صحافیوں کی جانب سے سائفر کیس کے فیصلے پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے، سائفر کیس کے فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم اب بھی کنٹرولڈ جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔

Related Posts