امریکہ کے ادھورے وعدے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

2023 کا پہلا دن یوکرین جنگ کے دونوں فریقوں کے لیے ایک اور ہولناک دن تھا۔ rt.com نے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ایل پی آر کے قصبے پرووومائیسک میں واقع ایک ہسپتال پر یوکرین کے حملے میں کم از کم چھ شہری ہلاک ہو گئے۔

ڈونیٹسک شہر کے ساتھ ساتھ ڈونیٹسک (DPR) اور Lugansk (LPR) عوامی جمہوریہ کے دیگر مقامات پر 15 سے زیادہ شہری زخمی ہوئے جو رات بھر یوکرین کی فورسز کے بھاری توپ خانے اور راکٹ حملوں کی زد میں آئے۔ ان حملوں کیلئے یوکرین کی فوج نے 155 ملی میٹر نیٹو کیلیبر آرٹلری اور مغربی فراہم کردہ متعدد راکٹ لانچرز کا استعمال کیا۔

دوسری طرف الجزیرہ نے اطلاع دی ہے کہ یوکرین میں 20 سے زیادہ کروز میزائل داغے گئے جس میں تین دنوں میں ملک پر حملوں کی دوسری لہر میں دارالحکومت میں ایک شخص ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔ الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ روس اور یوکرین نے دونوں فریقوں کے درمیان تازہ ترین قیدیوں کے تبادلے میں 200 سے زیادہ گرفتار فوجیوں کو رہا کر دیا ہے۔

یوکرین کی جنگ کے 313 ویں دن بھی دونوں فریقوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے، مگر اس کے باوجود اب تک اس وحشت ناک کھیل کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ دونوں متحارب ممالک کے درمیان امن کیلئے کی گئی تمام سفارتی کوششیں تا حال بے نتیجہ چلی آ رہی ہیں جبکہ یوکرین کی جنگ کو ہوا دینے والی امریکی و نیٹو فوج کو روکنے کیلئے کہیں سے کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آ تی۔

نیویارک میں قائم کونسل آف فارن ریلیشنز (سی ایف آر) نے اطلاع دی ہے کہ 2022 میں امریکی غیر ملکی امداد بائیڈن انتظامیہ کی مختلف ترجیحات پر مبنی تھی، بشمول موسمیاتی تبدیلیوں، کووڈ اور دیگر وبائی امراض اور آمریت کے مقابلے کیلئے دی جانے والی امداد۔ لیکن فروری میں روس کے حملے کے بعد سے، یوکرین امریکی غیر ملکی امداد کا سب سے زیادہ وصول کنندہ بن گیا ہے۔ جب ہیری ایس ٹرومین انتظامیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مارشل پلان کے ذریعے براعظم کی تعمیر نو کے لیے بڑی رقم کی ہدایت کی تھی تب سے یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی یورپی ملک امریکی امداد حاصل کرنے میں سرفہرست ہے۔

کیل انسٹی ٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی، جو ایک جرمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، نے رپورٹ کیا ہے کہ “2022 میں بائیڈن انتظامیہ اور امریکی کانگریس نے یوکرین کے لیے تقریباً 50 بلین ڈالر کی امداد کی ہدایت کی ہے”۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد 10 ماہ میں کسی بھی ملک کو امریکہ کی جانب سے دی جانے والی سب سے زیادہ مالی امداد ہے۔ اس میں انسانی، مالی اور فوجی مدد شامل ہے۔ یہ تاریخی رقوم یوکرین کے لوگوں اور اداروں کے ایک وسیع مجموعے کی مدد کر رہی ہیں، جن میں پناہ گزین، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آزاد ریڈیو براڈکاسٹر شامل ہیں، جبکہ زیادہ تر امداد فوج سے متعلق ہے۔ نیٹو اور یورپی یونین کے بیشتر ارکان سمیت درجنوں دیگر ممالک بھی یوکرین کو بڑے پیمانے پر امدادی پیکیج فراہم کر رہے ہیں۔

یوکرین پر امریکا کی توجہ کا عالم یہ ہے کہ اس کی وجہ سے امریکہ ایشیا پیسیفک خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل سے بھی قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے کینبرا کو جوہری آبدوز کی فراہمی میں مقررہ تاریخ سے نمایاں طور پر تاخیر کی ہے، جس کا فیصلہ 2021 کے US-UK-Australian فوجی اتحاد (AUKUS) کی تشکیل کے معاہدے کے وقت کیا گیا تھا۔

اس سال ستمبر میں امریکی بحریہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ نیوکلیئر شپ یارڈز میں زیادہ بھیڑ ہے اور امریکہ میں مزدوروں کی کمی ہے، جس کی وجہ سے آسٹریلوی بحریہ کو امریکی جوہری آبدوزوں کی فراہمی 2030 سے 2040 تک ایک دہائی تک پیچھے چلی گئی ہے۔ یہ صورتحال درحقیقت یوکرین کو فوجی امداد کی ضرورت سے زیادہ لاگت کی وجہ سے امریکی صنعتی صلاحیت پر دباؤ کا نتیجہ ہے، جس سے یقینا امریکی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مزید برآں یہ صورتحال واضح طور پر جاپان، جمہوریہ کوریا اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے اس نئے فوجی بلاک کے ساتھ ممکنہ تعاون کی راہ میں بھی ایک طرح کی رکاوٹ بن سکتی ہے، اس عمل سے خطے میں اثر و رسوخ مضبوط کرنے کا مغربی منصوبہ بھی واضح طور پر متاثر ہوسکتا ہے۔

تقریباً 73 فیصد امریکی شہریوں کا خیال ہے کہ ”دنیا بھر کے ‘تنازعات’ کو فنڈ دینے کی وجہ سے امریکہ نے گزشتہ 50 سالوں میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ دنیا بھر کے تنازعات میں دامن الجھانے کے باعث امریکی حکومتیں اپنے شہریوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کر پا رہی ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک فارن پالیسی کے کالم نگار اسٹیفن ایم والٹ نے آٹھ وجوہات بتائی ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکہ کو ناک گھسیڑنے کی ‘مجبوری’ درپیش ہے۔ ان میں سے ایک امریکی مقتدرہ کا یہ خیال کہ ان کے سیاسی اصول ہر جگہ درست ہیں اور لامحالہ انہیں بیرون ملک پھیلانے کی ضرورت ہے۔

مذکورہ کالم نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ واشنگٹن نے اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کیلئے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اتحادیوں کو سہانے سپنے دکھائے اور بڑے بڑے وعدے کر رکھے ہیں، جو وقت کے ساتھ امریکا کے گلے پڑ رہے ہیں۔

انہی وعدوں میں سے مختلف اوقات میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ کیے جانے والے مختلف وعدے بھی ہیں، جن میں سے بہت ہی کم وفا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ ایسا ہی ایک وعدہ پاکستان کی ترقیاتی امداد کا ہے، جو تا حال تشنہ تکمیل ہے۔

یہ واضح ہے کہ امریکہ اس وقت تک اپنے اتحادیوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کر سکتا جب تک وہ جغرافیائی سیاسی تنازعات کی مالی امداد بند نہیں کرتا، جو اس کے خیال میں اس کے “سیاسی اصولوں” کے مطابق ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ سیاسی اور فوجی تنازعات میں الجھنا بہت مہنگا کھیل ہے، اس کے اخراجات کے بوجھ کے ہوتے ہوئے دوسرے وعدوں کیلئے گنجائش کہاں بچ سکتی ہے۔ 

Related Posts