عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ۔۔۔ ممکنہ ڈیل اور انتخابات کا منظرنامہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پہلے اٹک اور پھر اڈیالہ جیل میں قید ہونے والے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان آ ج کل مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور کیوں نہ کریں ؟کیونکہ انسان کو ایک نہ ایک روز وہ کاٹنا ضرور پڑتا ہے جو وہ بوتا ہے۔

آپ کے دور میں لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، اپوزیشن جیل گئی اورقید بھی بھگتی اور اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو اپوزیشن کے رہنما درجنوں تھے اور عمران خان اکیلا کھڑا تھا۔ جب اکیلا شخص شیر بن کر ہجوم کا شکار کرتا ہے توجو اس کے ہاتھ لگتا ہے اس کی خیر نہیں ہوتی لیکن جب وقت کروٹ لیتا ہے اور اس ہجوم کا ہر وہ رکن جوماضی میں کبھی گیدڑ سمجھا گیا تھا، شیر بن کر شکار کرنے لگتا ہے تو پہلے جسے شیر بننے کا موقع ملا تھا، اس کا حشر نشر ہوجاتا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہورہا ہے، اس پرافسوس تو ضرور ہونا چاہئے، حیرت نہیں۔   

یہ بھی پڑھیں:

سعودی عرب کا اسرائیل کوتسلیم کرنے کا رجحان اور پاکستان پر ممکنہ دباؤ

 ماضی میں 1984ء میں جب بے نظیر بھٹو واپس آئیں تو راقم الحروف نے حکومتی سطح پر تمام تر فیصلے ہوتے دیکھے اور یہ فیصلہ بڑی مشکل سے کیا گیا کہ ائیرپورٹ سے پی پی پی کی چیئر پرسن بے نظیربھٹو کو وطن میں داخلے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے۔پھر لاکھوں لوگ بے نظیر کے استقبال کیلئے حکومت کی اجازت کے ساتھ نکلے، جو ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔

پھر اگرہم بیسویں اور اکیسویں صدی کے سنگم پر آجائیں تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں نہ نواز شریف کو وطن واپسی کی اجازت تھی، نہ ہی بے نظیر بھٹو کو، لیکن پھر وقت نے وہ دن بھی دکھائے کہ نواز شریف کی بھی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی جو آگے چل کر وزیر اعظم بنے جس سے انہیں ایک قومی ریکارڈ قائم کرنے کا موقع بھی میسر آیا یعنی ملک کا سب سے بڑا سیاسی رہنما جس نے وزیر اعظم بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل  کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور جس قابلِ قدر کارنامے کو مسلم لیگ (ن) کے سیاسی لیڈر عوام کے سامنے بڑھ چڑھ کر بیان کیا کرتے ہیں کہ ہے کوئی نواز شریف کی ٹکر کا لیڈر تو بتاؤ؟ اور کہا جاتا ہے کہ  میاں صاحب جب آئیں گے تو لگ پتہ جائے گا اور یہی وہ واحد لیڈر ہے جس کے پاس عوام کی تمام تر مشکلات کا حل ہے۔

کیا واقعی نواز شریف کے پاس عوام کےتمام تر مسائل کا حل موجود ہے؟ اگر ہاں، تو ماضی میں 3 بار وزیر اعظم بننے کے باوجود بھی نواز شریف ملک کو آئی ایم ایف اور سودی نظام سے نجات دلانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکے اور کیوں آئی پی پیز کے ساتھ ایسے معاہدے کیے گئے جن کا فائدہ صرف اور صرف بجلی بنانے والی کمپنیوں کو پہنچتا ہے، اپنے خون پسینے کی کمائی سے بجلی کا بل بھرنے والوں کو نہیں؟

یہ تو ہوئی مسلم لیگ (ن) کی بات، اگر ہم ایک بار پھر تحریکِ انصاف کی بات کریں تو عمران خان اور موجودہ  صدر ڈاکٹر عارف علوی جو بظاہر یہ کہتے نظر آتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل نہیں ہوگی اور اب ہمارا فیصلہ صرف عوام کریں گے، وہ درِ پردہ کسی نہ کسی ڈیل کی تلاش میں ہی نظر آتے ہیں اور ایسی متعدد خبریں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی زینت بن چکی ہیں جن میں عمران خان کی جانب سے عسکری قیادت کو ہر قسم کی لچک دکھانے کیلئے تیار ہونے کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں اور ”نوڈیل“ کے الفاظ دوسری سمت سے سنائی دیتے ہیں، اِس سمت سے نہیں۔

آج عام آدمی صرف یہ سوچتا ہے کہ اس کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا جو بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے بجھا دیا، اس گھر میں روشنی کیسے آئے گی جس کا میٹر اس وجہ سے کاٹ دیا گیا کہ گزشتہ 2 یا 3 ماہ سے بجلی کا بل نہیں بھرا جاسکا۔ وہ غریب بچے تعلیم کیسے حاصل کریں گے جن کے والدین نے انہیں یہ سوچ کر اسکول سے نکال لیا کہ ہم اسکول کی فیس بھریں یا اپنے گھر کے اخراجات پورے کریں؟

وہ ملک ترقی کیسے کرے گا جس کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بے فیض ڈگریاں اور اپنے ہی ملک کے عوام کو لوٹنے اور قتل کرنے کیلئے پستول اور بندوقیں آچکی ہوں؟ اس قوم کے بچے پڑھ لکھ کر افسر کیسے بنیں گے جس نے ان کے ہاتھوں سے کتاب چھین کر گاڑیاں صاف کرنے کیلئے ہاتھوں میں کپڑا تھما دیا ہو؟  عوام کے بظاہر مقبول ترین کہلانے والے لیڈر عمران خا ن کے پاس بھی ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا اور آج بھی پی ٹی آئی سے جب اس کی کارکردگی پر سوال کیا جاتا ہے تو نواز شریف کی کرپشن، بلاول کے غیر ملکی دوروں اور نگران حکومت کی کارکردگی کو برا بھلا کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے اور عمران خان کا حال تو وہ ہے کہ:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی ڈیل کے امکانات کو مسترد بھی نہیں کیاجاسکتا کیونکہ چیئرمین تحریکِ انصاف کی وجہ سے بیرونِ ملک سے بھی دباؤ ہے جس کا طویل عرصے تک سامنا نہیں کیاجاسکتا اور ایسا ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے الزامات پی ڈی ایم حکومت پر ڈال کر یا کسی اور طریقے سے تمام تر مسائل کا رخ موڑا بھی  جائے کیونکہ ہمارے عوام کو خوش نما نعروں کی جانب راغب کرنا طویل عرصے سے سیاستدانوں اور بسا اوقات اسٹیبلشمنٹ کا بھی مرغوب مشغلہ رہا ہے ، ماضی میں قوم کا حافظہ کمزور ہونے کا فائدہ ہمیشہ مفاد پرست سیاستدانوں نے خوب خوب اٹھایا ہے اور آگے بھی ایسے ہی امکانات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

نواز شریف پران کی پارٹی کے لوگ بھروسہ کرتے ہیں تاہم سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے معاملے میں پارٹی کی سوچ کسی اور جانب مائل نظر آتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نواز شریف کو کسی کی آشیرباد حاصل نہیں، پھر بھی وہ اپنے دم پر وطن واپس آرہے ہیں تو اس چیز کو ذہن قبول نہیں کرتا کیونکہ ماضی قریب میں کتنی ہی بار نواز شریف کی وطن واپسی کے وعدے ہوئے اور تاریخیں دی گئیں لیکن انہوں نے ہمیشہ آمد سے انکار ہی کیا۔

آمد سے انکار کی سب سے بڑی وجہ تو عمران خان کی حکومت تھی جو اپوزیشن کے ہر رہنما کو جیلوں میں ڈالنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے تھے اور نہایت جانفشانی، مستعدی اور محنت و مشقت کے ساتھ اسے سرانجام بھی دیا کرتے تھے جس کا اعتراف کرتے کرتے آج پی پی پی اور ن لیگ سمیت پی ڈی ایم کی قیادت تھکتی نہیں ہے اور پھر جب پی ڈی ایم کو موقع ملا تو اس نے پی ٹی آئی سے وہ قرض بھی  اتروا لیے  جو بقول شاعر ان پر واجب بھی نہیں تھے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات الیکشن کمیشن کے دئیے ہوئے ٹائم فریم میں ہوجائیں گے اور کیا تحریکِ انصاف اور اس کا چیئرمین ان انتخابات میں حصہ بھی لے سکیں گے تو تکنیکی اعتبار سے عمران خان کا الیکشن میں حصہ لینا فی الحال کوئی ممکن العمل بات دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کی ڈیل کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آتا۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت عارف علوی اور شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کی باقی ماندہ قیادت ضرور انتخابات میں حصہ لے گی اور عوام کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کامیابی بھی ضرور ملے گی، سو پی ٹی آئی کا یہ بیان کہ عمران خان کے بغیر انتخابات غیر آئینی یا غیر اخلاقی ہوں گے، اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ جن انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد ووٹ دے کر اپنے نمائندوں کو منتخب کرے ، اس دوران میں ایک بظاہر مقبول ترین رہنما کو انتخابات سے دور بھی کردیا جائے تو ا س سے ملک کی سیاسی صورتحال پرزمین آسمان کا فرق مرتب ہوتا دکھائی نہیں دیتا، جیسا کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے۔

Related Posts