سعودی عرب کا اسرائیل کوتسلیم کرنے کا رجحان اور پاکستان پر ممکنہ دباؤ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حال ہی میں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے یہ بیان دیا کہ سعودی عرب سے امن معاہدے کے ساتھ ہی 6 سے 7 دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے جو مسلم دنیا کیلئے  ایک نئے جیو پولیٹیکل منظر نامے کا پیش خیمہ ہے۔

انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ سعودی عرب کے بعد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے 6 یا 7 ممالک کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے، جس پر پاکستان کو فوری طورپر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ہمارے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات نہیں کی ،  پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور پاکستان اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ پاکستانی عوام اور فلسطینیوں کے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

سکھ رہنما کا قتل۔۔۔کینیڈا اور بھارت کے نہایت کشیدہ تعلقات

پاکستان اور سعودی عرب کی خواہش ہے کہ امن معاہدے کے ذریعے مقبوضہ فلسطین کے مظلوم افراد کو ان کے حقوق میسر آئیں اور مسئلۂ فلسطین کا کوئی پائیدار حل برآمد ہوسکے تاہم اسرائیل ایسا ہونے نہیں دے گا۔ راقم الحروف کو ذاتی طور پر طویل عرصے تک بطور سفیر پاکستان متحدہ عرب امارات میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا اور اپنے ذاتی تجزئیے کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات  نے  سعودی عرب سے مشورے کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوگا۔

تاہم اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یو اے ای جو کام کرتا ہے وہ اوّل تو سعودی عرب سے صلاح و مشورے کے بعد سرانجام دیا جاتا ہے اور دوم یہ کہ  سعودی عرب اس کے بعد اس عمل کو اپناتا ہے ۔ اس دوران میں سعودی عرب مسلم ممالک کے تیور بھانپ بھی لیتا ہے اور اقوامِ عالم کے حالات و واقعات کا بھی جائزہ لے لیتا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے ، سعودی عرب او آئی سی کی آبیاری  کرتا ہے اور اس تنظیم پر سعودی اثر و رسوخ بھی ہے جس کی بنا پر سعودی عرب کے فلسطین کے متعلق فیصلوں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اثر دیگر مسلم دنیا پر بھی مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔  

خود سعودی عوام اور مسلم امت کا بھی سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر ممالک پر عالمی سطح پر دباؤ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے عوام کے مسائل کا  دونوں فریقین یعنی مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل  کو قابلِ قبول  کوئی مداوا اور سد باب ہونا چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ سعودی عرب اگر اِس سال نہیں تو اگلے سال اسرائیل کو تسلیم کرلے ، جس کے بعد دیگر مسلم ممالک پر اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا ، اتحادی ممالک اور مغرب کا دباؤ مزید بڑھ جائے گا کہ اسرائیل کو باقی ممالک بھی تسلیم کرنے کا عمل شروع کریں۔

تاہم جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی  نے واضح کردیا کہ ہمارا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فی الوقت کوئی ارادہ نہیں، فی الحال پاکستانی عوام اس فیصلے کو ہضم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ، نہ ہی اس کی کوئی تک بنتی ہے۔

اسرائیل کے زیر قبضہ مقامات کی  مذہبی اہمیت سے تو کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بیت المقدس کی مقدس ترین سرزمین اور مسلمانوں کا قبلۂ اوّل یعنی مسجدِ اقصیٰ اسرائیل کے قبضے میں ہے جس کی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری اور یہودیوں کی نظر میں اہمیت انتہائی مسلم ہے۔ اسرائیل ایک ترقی یافتہ ملک  اور او ای سی ڈی کا رکن ہے جس کی 2021ء  میں آبادی 90لاکھ نفوس سے زائد تھی۔ پاکستان کی طرح اسرائیلی جمہوریت بھی پارلیمانی نظام کے تحت چلتی ہے جس میں وزیر اعظم ہی سربراہِ مملکت ہوا کرتا ہے۔ امریکا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ یہ دو ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا مڈل ایسٹ کی سیاست، آپس میں انٹیلی جنس اورعسکری معلومات کا اشتراک کرتے نظر آتے ہیں۔

پانی کاتحفظ ہو، زراعت ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سمیت  دنیا بھر میں اسرائیلی کمپنیوں کی بنائی گئی مصنوعات نہ صرف فروخت ہورہی ہیں بلکہ اسرائیل اچھا خاصا زرِ مبادلہ کما رہا ہے جس کا حجم اربوں ڈالرز میں ہے اور دنیا بھر میں اگر کسی ملک میں دنیا کی کوئی قدیم ترین قو م یعنی یہودی بستے ہیں تو وہ اسرائیل ہے، یہ الگ بات کہ اسرائیل کے وجود پر سوائے صیہونیوں کے خود یہودی قوم بھی سوالات اٹھاتی نظر آتی ہے ۔  درآمدات و برآمدات کی بات کی جائے تو اسرائیل ہیرے، آئی سی (انٹیگریٹڈ سرکٹس)،   ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات، طبی سازوسامان دیگر ممالک کو برآمد کرتا ہے جس سے 2021ء میں اسرائیل کو 60اعشاریہ 16ارب ڈالرز کا کثیر زرِ مبادلہ حاصل ہوا۔ واضح رہے کہ اسرائیل دنیا بھر میں آئی سیز کا 16واں بڑا ایکسپورٹر ہے جس نے 2021 میں صرف انٹیگریٹڈ سرکٹس کی برآمدات سے 5ارب ڈالرز کمائے اور واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ آئی سیز کا  استعمال ٹی وی، ریڈیو  اور  کمپیوٹرز سمیت درجنوں الیکٹرانک آلات میں کیا جاتا ہے۔

اگر سعودی عرب کی جانب سے امن  معاہدہ  یا  مقبوضہ فلسطین کے عوام  کیلئے  کوئی قابلِ قبول  فیصلہ سامنے آتا ہے جس میں خاص طور پر مسئلۂ فلسطین کا کوئی دیرپا حل جس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنا شامل ہے تو اس کے بعد پاکستان کیلئے بھی اس ضمن میں کسی اہم فیصلے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔

اسرائیلی وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ افریقہ اور ایشیا کے 6 سے 7 مزید ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں ، عالمی جیو پولیٹیکل تناظر میں  اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان ملک کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا آسان فیصلہ نہیں ہوگا، تو ظاہر ہے کہ اس وقت تک اسرائیل کی جانب سے امن معاہدے سمیت ایسے کوئی نہ کوئی اقدامات تو ضرور اٹھائے جائیں گے کہ مسلم ممالک کیلئے ایسا مشکل فیصلہ کسی نہ کسی حد تک آسان ہوجائے۔

جب 6 یا 7 یا پھر اس سے زیادہ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے تو پاکستان کیلئے بھی مسلم ممالک کی اس لائن سے پیچھے رہنا شاید بے حد مشکل یا پھر ناممکن ہوجائے۔ ایسی صورت میں پاکستان اپنے اور فلسطین کے عوام کے بہترین مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جو فیصلہ کرے گا، اس کے متعلق آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے۔

مسلم ممالک کی بات کی جائے تو چین نے جس طرح سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کرکے دونوں ممالک کے مابین عرصۂ دراز سے تعطل کا شکار تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، اس پر دنیا آج تک حیران ہے اور یہی صورتحال دیکھتے ہوئے امریکا نے یہ سوچا کہ اگر مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو خطے میں اس کی یہ سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہوگی اور امریکا اسرائیل کو ساتھ ملا کر عسکری سبقت بھی حاصل کرسکے گا۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کیا اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کی پوری چین اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے اور خطے میں عرب ممالک کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد فرض کیجئے کہ اگر  پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے تو امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کے ساتھ ساتھ ترکی، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی سفارتی و معاشی سطح پر ایک دوسرے کے  ساتھ کھڑے نظر آئیں گے جس سے معاشی بحالی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

یقیناً امریکا چین کی راہیں مسدود کرنے کی خارجہ پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے جسے چائنا کنٹینمنٹ پالیسی کہا جاتا ہے۔ سعود ی عرب بھی امریکا کے ساتھ اپنے عسکری اور روایتی معاہدوں کو آگے بڑھانے کا عندیہ دے چکا ہے جس کے بعد خطے میں چین کی سفارتی پوزیشن جو امریکا سے کہیں بہتر ہوچکی تھی، اس میں امریکا چین سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔

Related Posts