اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ 1 ماہ کے دوران 3000 پوائنٹس کی کمی: معیشت کب مستحکم ہوگی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اسٹاک مارکیٹ رواں برس جنوری کے آخری دنوں میں 42 ہزار کی سطح پر ٹریڈ کر رہی تھی جبکہ آج اسٹاک مارکیٹ تازہ ترین صورتحال کے مطابق 39 ہزار 500 کی سطح سے بھی نیچے آچکی ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 3000 سے زائد پوائنٹس کی کمی آئی جبکہ حکومتی حلقے صرف گزشتہ روز کی 13 سو 12 پوائنٹس کی ریکوری کو معاشی استحکام کی دلیل قرار دے رہے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال پر ہم نے ایم ایم  سیکیورٹیز کے سینئر ایکویٹی سیلز آفیسر محمد فرحان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی ہماری بات کی تصدیق کی اور اس حوالے سے اہم نکات بتائے جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔ 

سوال  یہ ہے کہ گزشتہ 1 ماہ یعنی جنوری کے اختتام سے لے کر مارچ کے آغاز تک اسٹاک مارکیٹ میں 3000 پوائنٹس کی مندی کیسے آئی؟ آئیے اس تمام تر صورتحال کا ایک مختصر تجزیہ کرتے ہیں۔

اسٹاک مارکیٹ ایک اہم معاشی شعبہ 

اسٹاک مارکیٹ دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح ملکی معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے جس پر ملکی و بین الاقوامی امور سے متعلق مختلف میڈیا خبروں اور معاشی عوامل کا براہِ راست اثر پڑتا ہے۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ نیچے کیوں گرتی ہے؟ اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں جن میں سے چند ایک مہنگائی میں کمی و بیشی، افراطِ زر اور انٹرسٹ ریٹ اور آئل کی قیمتوں سمیت دیگر اہم خبریں ہیں۔

تاجر برادری نہایت باریک بینی سے ملکی حالات کا جائزہ لینے کے بعد کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عوامل سرانجام دیتی ہے۔

اگر اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان غالب آجائے تو یہ مندی ملکی معیشت کو براہِ راست متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ خاص طور پر سونے کی قیمتیں اور ڈالر کے ریٹس اس سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔

مارکیٹ کی موجودہ صورتحال

جیسا کہ ہم نے شروع میں تذکرہ کیا کہ اسٹاک مارکیٹ جنوری کے اختتام تک 42 ہزار کی سطح پر ٹریڈنگ کر رہی تھی اور آج یہ 39 ہزار 500 کی سطح سے بھی نیچے آچکی ہے۔مارکیٹ میں 39 ہزار 282 کی سطح پر ٹریڈنگ جاری ہے۔

اب تک اسٹاک مارکیٹ میں کے ایس ای 100 انڈیکس میں 13 پوائنٹس کی کمی آئی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید منفی یا مثبت بھی ہوسکتی ہے جس کی واضح پیش گوئی فی الحال ہمارا موضوع نہیں۔

مثبت خبریں جو اسٹاک مارکیٹ پر اثر نہ ڈال سکیں

دیکھا جائے تو گزشتہ ایک ماہ کے دوران کوئی ایسی منفی خبریں نہیں آئیں جن سے اسٹاک مارکیٹ اتنی کم سطح پر ٹریڈنگ کرتی، اس کی مثالیں بھی ہم آپ کو پیش کردیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مہنگائی کم ہوئی اور افراطِ زر کی شرح میں 2.2 فیصد کمی آئی جس سے انٹرسٹ ریٹ یعنی شرحِ سود میں بھی کمی دیکھی گئی۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں بھی کم ہوئیں جس کی  اِس وقت اوسطاً 45 ڈالر کی سطح پر ٹریڈنگ جاری ہے جو رواں برس کے آخر تک ایک رپورٹ کے مطابق 10 ڈالر کی سطح پر آجانا چاہئے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر پاکستان پر بھی ہوا اور پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اوسطاً 5 سے 7 روپے فی لٹر تک کمی کی گئی، تاہم یہ تمام خبریں مارکیٹ پر مثبت اثر مرتب کرنے میں ناکام رہیں۔ 

منفی خبریں اور اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال

جنرل پرویز مشرف کے خلاف پھانسی کا فیصلہ 

گزشتہ برس  دسمبر کے دوران ہی پرویز مشرف کے خلاف پھانسی کا فیصلہ آگیا جس کے بعد مارکیٹ گر گئی۔41 ہزار کی سطح پر ٹریڈنگ کرنے والی اسٹاک مارکیٹ 19 دسمبر کو 100 انڈیکس میں 948 پوائنٹس کی کمی آئی۔

پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کو پاک فوج  نے انتہائی تشویش کی نظر سے دیکھا اور فوجی تاریخ میں پہلی بار اس خبر پر ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی۔ اسٹاک مارکیٹ اس دن 40 ہزار 655 پوائنٹس پر بند ہوئی۔

کورونا وائرس کی خبر 

گزشتہ برس دسمبر سے ہی شروع ہونے والے کورونا وائرس نے سب سے پہلے چین کی اسٹاک مارکیٹ کو متاثر کیا۔ ہمارا ہمسایہ ملک چین بین الاقوامی معیشت کو کس طرح متاثر کرتا ہے، یہ سمجھنا بھی بے حد اہم ہے۔

ہمسایہ ملک چین بڑے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز میں شامل ہے۔ ایسے ممالک میں امریکا کے بعد چین کا دوسرا نمبر آتا ہے جو سب سے زیادہ اشیاء ملک میں درآمد یعنی امپورٹ کرتے ہیں۔

دوسری  جانب اگر ہم ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کا جائزہ لیں تو ان میں چین امریکا کو بھی مات دے کر پہلے نمبر پر آجاتا ہے۔ امریکا کا ایکسپورٹ یعنی برآمد کرنے والے ممالک میں دوسرا نمبر ہے۔

جب چین میں کورونا وائرس کے باعث ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہو گئی تو چین نے صوبہ ہوبائی اور وہان شہر سمیت وائرس سے متاثرہ تمام تر علاقوں میں کرفیو جیسا ماحول پیدا کردیاجس سے آمدورفت اور امپورٹ ایکسپورٹ بند ہو گئی۔

چین کی طرف سے اس اقدام کا مقصد کورونا وائرس پر قابو پانا تھا جس کی مخالفت دنیا کے کسی بھی ملک کی طرف سے سامنے نہیں آئی، تاہم اس عمل سے اسٹاک مارکیٹس بری طرح متاثر ہوئیں اور متاثر ہونے کا عمل آج تک جاری ہے۔

اب تک کورونا وائرس کے باعث چین، جاپان، امریکا، اٹلی، برطانیہ، بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی مارکیٹس میں اربوں نہیں بلکہ کھربوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سرمایہ کاروں کے 5 کھرب ڈالر ڈوب گئے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال کا پاکستان پر بھی براہِ راست اثر پڑا جبکہ گزشتہ ماہ کے آخر میں کورونا وائرس ہمارے وطن میں بھی داخل ہوگیا ہے جس سے اسٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات کی پیش گوئی ایک بچہ بھی کرسکتا ہے۔

متفرق منفی خبریں اور اسٹاک مارکیٹ

وفاقی وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی اسٹاک مارکیٹ میں منفی اثرات لائے۔ مثال کے طور پر نومبر کے دوران وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے پیش گوئی کی کہ میں دسمبر تک پاک بھارت جنگ دیکھ رہا ہوں۔

وزیر موصوف کی یہ پیش گوئی تو پوری نہ ہوسکی، لیکن اسٹاک مارکیٹ اس روز منفی پر ٹریڈنگ کرتی رہی اور چند ایک نفسیاتی حدیں بھی گر گئیں۔ وزراء کو ایسے بیانات سے گریز کرنا لازمی ہے۔

پرویز مشرف کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت کے مسئلے کو عدلیہ نے جس طرح اٹھایا، اس کی مثال بین الاقوامی تاریخ میں دستیاب نہیں۔ اس سے بھی اسٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہے۔

حل کیا ہے؟

اسٹاک مارکیٹ سمیت ملک کے ہر معاشی مسئلے کا حل حکومت کا استحکام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک کمزور وفاقی حکومت چلا رہے ہیں جس کا اثر ان کے فیصلوں پر واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ملکی نظام میں سربراہِ مملکت کا کردار اہم ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کی معاشی پالیسیوں پر من و عن عمل نہیں کیاجاتا جبکہ معاشی ٹیم آئی ایم ایف کے سابقہ عہدیداروں کی سربراہی میں کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی طرف سے چھٹیوں کی درخواست پر درخواست اور ٹیکس سمیت ملکی معیشت کے دیگر نظاموں میں عدم توازن کی صورتحال وہ عوامل ہیں جو اسٹاک مارکیٹ کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ  وزیر اعظم کی  معاشی ٹیم کی نااہلی بھی ہے۔ اگر وزیر اعظم کی معاشی ٹیم کی کارکردگی اتنی ہی اعلیٰ سطح کی حامل ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں تو معاشی ٹیم عوامی مسائل سے لاعلم کیوں ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ایک بار یہ بیان بھی داغ دیاتھا کہ سب کچھ سستا ہے اور ٹماٹر آج کل 17 روپے کلو بک رہا ہے جس کا مذاق اڑایا گیا، تاہم یہ بات ایک غیر سنجیدہ رویے کی عکاس تھی۔ 

اپنی تمام تر ایمانداری، غریبوں کے لیے احساس پروگرام، نوجوانوں کے لیے کامیاب جوان پروگرام اور چھوٹے کاروبار کے لیے احساس آمدن اور اثاثہ جات پروگرام سمیت وزیر اعظم کی حکومت معیشت کو بہتر کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

Related Posts