کیماڑی میں ہلاکتیں اصل معاملہ ہے کیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گذشتہ 48 گھنٹوں میں کراچی بندرگاہ کے مشرقی کنارے پر پراسرار طریقے سے ہونے والی اموات کی تعداد 14 ہوگئی

کراچی پورٹ کے مشرقی کنارے پر واقع جزیرہ نما کیماڑی تین یونین کونسل پر مشتمل علاقہ ہے یونین کونسل 1 کراچی پورٹ کے مشرقی کنارے یا ایسٹ وہارف کے ساتھ ساتھ پرانے نیٹیو جٹی پل گھاس بندر سے شروع کر نگینہ جیکسن اور بندرگاہ کے ابتدائی سرے کیماڑی نمبر ایک تک کے علاقوں پر مشتمل ہے، جیکسن بازار، ڈاکس کالونی، ریلوے کالونی، باب السلام سوسائٹی اور کے پی ٹی گراؤنڈ کے علاقے اسی یونین کونسل کا حصہ ہیں، یونین کونسل نمبر دو میں مسان روڈ، بھٹہ ویلیج اور کچھی پاڑہ کے علاقے آتے ہیں جبکہ یونین کونسل نمبر تین ٹاپو، گشن سکندر اباد، اور سلطان آباد پر مشتمل ہے. کیماڑی کی مجموعی آبادی 5 لاکھ سے متجاوز ہے.

جزیرہ نما کیماڑی کے تین اطراف پانی ہے، جبکہ زمین سے اس کا رابطہ شیریں جناح کالونی کلفٹن بلاک ایک کے راستے ہے، ٹاور کھارادر اور بندرگاہ کے مغربی کنارے یعنی ویسٹ وہارف سے اس کا رابطہ بذریعہ پل قائم ہے. کراچی پورٹ کے مشرقی کنارے ایسٹ وہارف یا کیماڑی میں کل 17 برتھیں ہیں جو ایک نمبر کیماڑی سے شروع ہوکر گھاس بندر پر 17 نمبر برتھ پر آکر ختم ہوتا ہے. اسی کنارے پر برتھ نمبر 4 تا 10 اب پی آئی سی ٹی کے نام سے ایک نجی کنٹینر ٹرمینل قائم ہے، جبکہ دیگر برتھیں کراچی پورٽ ٹرسٹ یا اس کی اجازت سے دیگر نجی ٹھیکیداروں کے پاس ہیں جنہیں اسٹیوڈورز کہا جاتا ہے. ایک نمبر کیماڑی سے اگر شیریں جناح یا کلفٹن بلاک ایک کی طرف جائیں تو نجی اور نیوی کی مسافر کشتیوں کے لئے بوٹ بیسن اور اس کے بعد تیل برادر جہازوں کی جیٹی ہے، جن سے اترنے والے مایع پیٹرولیم اور دیگر اقسام کا تیل قریب ہی قائم سیکڑوں کثیر منزلہ تیل ٹینکرز یا آئل ٹرمینلز میں جمع کیا جاتا ہے اور پھر وہاں اس تیل کی پائپ لائنوں اور دیوقامت ٹینکرز کے ذریعہ کراچی اور ملک بھر کو ترسیل کی جاتی ہے، انہی آئل ٹرمینلز سے متصل پاکستان کا پہلا گہرے سمندر میں قائم کنٹینر ٹرمینل ایس اے پی ٹی ہے، جسے عرف عام میں چائنا پورٹ بھی کہا جاتا ہے، وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایس اے پی ٹی کی تعمیر چینی انجینئرنگ اداروں نے کی اور اس ادارے میں چینی کمپنی حصہ دار ہے.

کراچی یونیورسٹی کے ماہرین کا دعوی ہے کہ 16 فروری کی شام بندگاہ پر مبینہ طور پر ایک جہاز لنگر انداز ہوا، جس سے سویا بین کابیج اتارا جارہا تھا، جس کے ساتھ انتہائی باریک زہریلے اجزا یا الرجنٹس ہوا میں پھیل گئے اور یہی اجزا کیماڑی میں 14 ہلاکتوں اور سیکڑوں لوگوں کو متاثر کرنے کا سبب بنے، متاثرین کی بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو پہلے ہی سانس کی بیماریوں میں مبتلا تھا، علاقے میں طویل عرصے تک بندرگاہ پر کوئلے کی غیر محفوظ ترسیل سے سانس کی بیماریاں عام ہیں.

ابتدائی اطلاعات کے مطابق جب جہاز نے مال اتارنا شروع کیا تو پراسرار طریقے سے ملحقہ آبادی مسان روڈ سے جیکسن بازار تک لوگوں کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگی، مقامی لوگوں نے اسے زہریلی گیس کا اخراج قرار دیا، جس سے ابتدائی طور پو 4 افراد جاں بحق اور درجنوں متاثر پوئے، تاہم متعلقہ ادارے ٹرمینل آپریٹر، پورٹ ٹرسٹ، وزارت بندرگاہ و جہاز رانی اور مقامی انتظامیہ نے روایتی تساہل سے کام لیا، پہلے پہل ان خبروں کی تردید کی، پھر خود کو لاتعلق کیا اور کہا کہ نہ یہ واقعات پورٹ کی حدود میں ہوئے، نہ ہی اس کا سبب کوئی ایسا جہاز ہے جو بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا ہو، چیئرمین کے پی ٹی اور وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ علی زیدی صاحب نے بیانات داغ دیئے کہ اس کا پورٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.

تاہم متاثرین اور جاں بحق افراد کی تعداد بڑھتی رہی اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 14 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں.

پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سے 48 گھنٹے کے دوران پاکستان نیوی، صوبائی محکمہ صحت اور کراچی یونیورسٹی کے ماہرین نے متاثرہ علاقے اور ہسپتالوں میں جا کر تحقیق کی، متاثرین کے خون اور علاقے کی ہوا کے نمونے لیئے گئے، اور بالآخر کراچی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس امر کا تعین کرلیا یہ کوئی زہریلی گیس نہیں بلکہ یہ سانحہ بندرگاہ پر لنگر انداز ایک جہاز سے سویا بین بیج غیر محفوظ طریقے سے اتارنے کی وجہ سے ہوا کے ذریعے انتہائی باریک ذرات کے پھیلے سے ہوا.

ایک اور ذریعے کا دعوی ہے کہ چین میں کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد کراچی پورٹ پر اترنے والے کئی اقسام کے سامان کے لئے فیومیگیشن لازمی قرار دے دی گئی ہے، جس کے بعد ایک نجی فیومیگیشن کمپنی نے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کی اجازت سے بندرگاہ کے مشرقی کنارے پر واقع نجی کنٹینر ٹرمینل پی آئی سی ٹی میں پرانے کپڑوں کے کنٹینرز پر میتھائیل برومائیڈ نامی ممنوعہ کیمکل کا چھڑکاؤ کیا جو ہوا میں پھیل کر متصلہ آبادیوں میں ہلاکتوں کا سبب بنا.

کراچی بندرگاہ پر غیر محفوظ طریقے سے کام کرنے کا نہ تو یہ پہلا واقع ہے اور نہ آخری، اس سے پہلے کئی برس تک کیماڑی میں کوئلہ انتہائی غیر محفوظ طریقے سے اتارا اور غیر محفوظ طریقے سے ٹرکوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا رہا جس نے کراچی شہر کے کئی علاقوں پر بالعموم اور بندرگاہ سے ملحقہ علاقوں کے ماحول پر باالخصوص تباہ کن اثرات ڈالے ہیں، لاکھوں لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے اور عمارات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ بارہا توجہ دلانے یہاں تک کہ کے پی ٹی ہیڈ آفس پر ان غیر محفوظ طریقوں کے خلاف ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے احتجاج کے باوجود متعلقہ اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اور تو اور پاکستان انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی بھی آنکھ کان بند کرکے بیٹھی رہی. اسی طرح بندرگاہ کے اندر اور ساحلی علاقوں میں سمندر میں آلودگی انتہائی درجہ تک پہنچ چکی ہے، شہر بھر کا سیوریج اور فیکٹریوں کا فضلہ بھی سمندر میں ڈالا جارہا ہے، اور طرفہ تماشہ یہ کہ کے پی ٹی نے ساحلوں کے قدرتی نگہبان مینگروو کے جنگلات کاٹ کر وہاں پلاٹس بنا کر افسران میں بانٹ دیئے، ان سب معاملات میں نہ کوئی تحقیقات ہوئیں نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرا کر کوئی سزا یا جرمانہ ہوا. اگر اس وقت بند باندھا گیا ہوتا تو آج 14 ہلاکتیں نہ ہوتیں. ہم وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان سے اپیل ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس لیں.

ہمارا مطالبہ ہے کہ موجودہ سانحہ کی عدالتی تحقیق کی جائے، ذمہ داران کا تعین کیا جائے، وزرات شپنگ، کے پی ٹی، ٹرمینل آپریٹر، جہازراں کمپنی، اسٹیوڈورز پر جرمانے عائد کئے جائیں اور سزائیں دی جائیں.

ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جاں بحق اور متاثر ہونے والوں کے لئے مناسب زرتلافی کا اعلان کیا جائے جو ذمہ داران پر جرمانے سے حاصل کیا جائے.

ہمارا مزید مطالبہ ہے کہ کراچی پورٹ پر سامان اتارنے چڑھانے اور جہازوں کی آمد و رفت میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حفاظتی اقدامات اور ماحول دوست نظام پر عمل درآمد کیا جائے اور کے پی ٹی کو کراچی بندرگاہ کی سمندری حدود کو صاف کرنے کا باپند بنایا جائے.

Related Posts