زیلنسکی! تیرے خون سے انقلاب آئے گا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکہ کی 50 فیصد خارجہ پالیسی مہروں پر کھڑی ہے اور پچاس فیصد جنگوں پر۔ اگر کسی ملک کے پاس قدرتی وسائل نظر آئیں تو امریکہ کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہاں کی حکومت کے ساتھ ان وسائل کے حصول کی بات کرکے گھی سیدھی انگلی سے نکال لیا جائے۔ اس کے نزدیک سیدھی انگلی یہ ہے کہ قیمت کا تعین گاہک یعنی امریکہ کرے گا۔

اگر وسائل کے مالک ملک کی حکومت رضامند ہوجائے تو ٹھیک۔ بصورت دیگر وہ اس ملک کے اقتدار تک اپنا کوئی مہرہ پہنچانے کی کوششیں شروع کردیتا ہے۔ اگر مہرہ اسکیم کامیاب ہوجائے تو اس ملک کے ان وسائل کی قیمتوں کے تعین کا اختیار امریکہ کو مل جاتا ہے جن کا حصول امریکہ چاہتا ہے اور یوں شروع ہوجاتا ہے لوٹ مار کا عمل۔ اور اگر مہرہ اسکیم بھی فیل ہو جائے تو پھر یہ غور کیا جاتا ہے کہ اس ملک پر حملہ کرنا ممکن ہے یا نہیں؟

اگر حملہ ممکن ہو تو وہ اس کے لئے میڈیا کے ذریعے زمین ہموار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی سے لے کر دہشت گردوں سے روابط اور ویپنز آف ماس ڈسٹرکشنز تک ہر رنگ کے الزامات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ اگر ٹارگٹ ملک میں روس یا چین کے بڑے مفادات نہ ہوں تو پھر حملے کے لئے سہارا بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کا لے لیا جاتا ہے۔ بصورت دیگر اپنے روایتی اتحادیوں کو ملا کر انہیں “عالمی برادری” قرار دیدیا جاتا ہے۔

یوں یورپ، جاپان، ساؤتھ کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا پر مشتمل چالیس پینتالیس ممالک “عالمی برادری” بن جاتے ہیں۔ کہنے کو یہ چالیس کے لگ بھگ ممالک ہوتے ہیں لیکن یہ سب اپنے موقف کو بار بار “پوری دنیا کا موقف” بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ میڈیا کا شور تاثر بھی یہی قائم کر دیتا ہے کہ یہ محض چالیس ممالک نہیں بلکہ پوری دنیا ہے۔

اس پورے کھیل میں یورپین یونین کا کردار قابل غور ہے۔ یہ ان ممالک کی یونین ہے جہاں امریکہ کو اپنا مہرہ لانے کا کشٹ نہیں اٹھانا پڑتا۔ اس یونین کے ممبر ممالک میں جہاں جو بھی الیکشن جیت جائے امریکی منشا کے تابع رہتا ہے۔ پھر اس کے لئے چاہے اپنے پیروں پر ہی کلہاڑا ہی کیوں نہ مارنا پڑے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ یوکرین کی جنگ میں امریکی منشا کی اتباع کرکے یہ اپنی معیشت تقریبا تباہ کرچکے۔ کہیں کساد بازاری ہے، تو کہیں ڈی انڈسٹرلائزیشن کا عمل۔ وہ بھی صرف ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں اور ان میں سے کوئی ایک بھی یہی نہیں کہہ رہا کہ بھئی ہم مزید تباہ ہونے کو تیار نہیں۔ گویا بقول جون، خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ ممالک امریکی چھتری تلے کر کیا رہے ہیں؟ یہ اپنی خود مختاری کی جانب کیوں نہیں چلے جاتے؟ اپنی ذات میں خود ہی ایک پلیئر کیوں نہیں بن جاتے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ان کے منہ کو خون لگ چکا۔ امریکہ جب کسی ملک کے وسائل لوٹنے کی تیاری کرتا ہے تو یہ اسی شرط کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہیں کہ لوٹ کے مال میں ان کا بھی حصہ ہوگا اور یہ حصہ انہیں ملتا بھی آیا ہے۔ پھر امریکی کیمپ میں رہنے کا ایک الگ فائدہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ جن ممالک کے وسائل میں امریکہ کو دلچسپی نہ ہو، وہاں ان میں سے کوئی ایک پہنچ جاتا ہے۔ سیانے ہیں، عام طور پر کسی بہت ہی کمزور ملک یا خطے کو کوٹارگٹ کرتے ہیں۔ مثلا فرانس کی افریقہ میں لوٹ مار ہی دیکھ لیجئے۔ یہ ملک نائجر سے 8 یورو فی کلوگرام میں یورینیم خرید رہا تھا، جبکہ عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت 200 یورو فی کلوگرام ہے۔ نائجر میں بغاوت کے نتیجے میں فرانس کی یہ لوٹ مار داؤ پر لگی تو اس نے امریکہ کی جانب رخ کرکے آواز لگائی:

“ابو! ابو! دیکھیں یہ مجھے یورینیم نہیں لینے دے رہے۔”

اور امریکہ سے وکٹوریہ نولینڈ فورا نائجر جا پہنچیں۔ بہت ڈانٹ ڈپٹ کی مگر کالے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اسی دوران نائجر حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ملک چھوڑنے کا کہا تو جواب گویا یہ دیا گیا:

“نہیں نکلتا، کیا کرلوگے؟”

کچھ دن شور شرابا رہا کہ افریقہ میں یورپ کے چمچہ ممالک کا اتحاد ایکواس بس کسی بھی وقت نائجر پر حملہ کرنے والا ہے تاکہ فرانس کے مفادات بحال کئے جاسکیں۔ ردعمل میں مخالف افریقی ممالک نے اکٹھ کیا تو غبارے سے ہوا خارج۔ یوں فرانس کے سفیر کو نائجر چھوڑنا پڑا۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ مختلف ممالک میں برسراقتدار امریکی مہروں کو ہمہ وقت خدمت کرتے رہنے کی حکمت عملی پر رہنا ہوتا ہے۔ اگر خدمت ہمہ وقت ہو تو یہ شاہ ایران یا حسنی مبارک کی طرح “صدیوں” بھی اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ ان کا اقتدار کتنا ہی ظالمانہ کیوں نہ ہو، امریکہ کی جانب سے انہیں این او سی ہر سال ملتا رہتا ہے لیکن اگر مہرہ معمولی سی بھی من مانی کرنے لگے تو پھر اسے راستے سے ہٹانے کی گیم شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی ہے۔ زیلنسکی چل روس مخالف ایجنڈے پر ہی رہا ہے۔ بس تھوڑی من مانی کرنے لگا ہے، مثلا یہ کہ امریکی کہیں کہ فلاں جگہ حملہ جمعرات کو کرنا تو یہ کہہ دیتا ہے، نہیں جمعے کو کروں گا۔ پچھلے چند ماہ میں اس طرح کی حرکتیں یہ کئی بار کر چکا۔

اوپر سے یہ خیرات بھی بھتے کی طرح مانگتا ہے اور اپنی ساری ناکامیاں یہ کہہ کر اپنے آقاؤں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے کہ انہوں نے خیرات کم دی تھی، اس لئے ناکامی ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ اب اس سے جان چھڑانے کا عمل شروع ہوچکا۔ زیلنسکی پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے امریکہ میں تھا تو نیویارک ٹائمز نے اس کے خلاف آرٹیکل چھاپ دیا۔ یہ وہی نیویارک ٹائمز ہے جو پچھلے ڈیڑھ سال سے اسے عظیم ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پولش صدر آندرے ڈوڈا نے امریکہ میں کھڑے ہوکر زیلنسکی کو “ڈوبتا شخص” بھی قرار دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ یوکرین کو مزید امداد نہیں دی جائے گی۔ ہم اپنی فوج مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ یہ خبر لیک کردی گئی کہ امریکہ زیلنسکی کو انتخابات کرانے کا کہہ رہا ہے۔

اصولی طور پر اگلے برس یوکرین میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ اور زیلنسکی اس کے باوجود انتخابات کرانے کو تیار نہیں کہ یوکرین میں اپوزیشن وہ پہلے ہی ختم کرچکا۔ وہاں کی اپوزیشن کچھ جیلوں میں ہے اور کچھ جلا وطن۔ پرائیویٹ میڈیا بھی سرکاری کنٹرول میں ہے مگر زیلنسکی پھر بھی انتخابات کے لئے تیار نہیں۔ اس معاملے میں زیلنسکی کی بیوی سیانی نکلی۔ فرماتی ہیں، زیلنسکی کو انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ یہ بات انہوں نے اسی لئے کہی ہے کہ جانتی ہیں امریکہ الیکشن کے ذریعے زیلنسکی کو آؤٹ کرنے کی تیاری کرچکا، لھذا اگر ان کے میاں نے اس عمل میں رکاوٹ ڈالی تو جنگ کے شکار ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کہیں سے بھی کوئی میزائل وزائل آنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ کھاتے میں پڑ بھی روس کے جائے گا۔ کوئی بعید نہیں کہ اس صورت میں زیلنسکی کے تابوت کو کاندھے بھی چاروں امریکی ہی ملیں اور چاچا بائیڈن کہے، زیلنسکی! تیرے خون سے انقلاب آئے گا!

Related Posts