پرچم پر چاند یا چاند پر پرچم؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

زبان و بیان سے انسان کے کردار کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس ملک اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ زبان ہی ہوتی ہے جو کسی شخص کو اچھا یا برا بناتی ہے۔

گزشتہ روز ٹوئٹر پر انڈیا آن دی مون ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت کی جانب سے روانہ کیا جانے والا چندریان تھری نامی خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتر گیا۔

جب چندریان 3چاند پر اترا تو روس، امریکا اور چین کے بعد بھارت چاند پر اپنا جھنڈا لہرانے والا چوتھا ملک بن گیا جو ایک بڑی پیشرفت ہے جس پر بھارت کو مبارکباد بھی دی جارہی ہے۔

ایک طرف جہاں سائنسدان اور فلکیات کے علم میں دلچسپی رکھنے والے لوگ چندریان 3 کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے، وہیں پاکستان کی جانب سے بھی مختلف پیغامات شیئر کیے گئے۔

ایک ویڈیو بڑی وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سننا بڑا ناگوار گزرا کہ پرچم پر چاند ہونا اور چاند پر پرچم لہرانا دو الگ باتیں ہیں اور دونوں باتوں میں فرق صرف اوقات کا ہے۔

گویا موصوف بھارتی شہری یہ کہہ کر بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مقبوضہ کشمیر میں بد ترین ظلم و ستم کیلئے مودی حکومت کو ہر الزام سے بری کردینا چاہتے تھے۔

راقم الحروف ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہے کہ سوال چاہے کتنا ہی توہین آمیز کیوں نہ ہو، اس کا جواب اگر توہین آمیز نہ ہو تو ضرور دینا چاہئے، تاکہ توہین کا جواب توہین سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے دیا جائے۔

حالانکہ بھارت جیسے ملک سے افہام و تفہیم چہ معنی دارد، لیکن دشمنی حکومتی سطح پر ہے، عوامی سطح پر لوگوں کے جذبات الگ ہوسکتے ہیں جنہیں سمجھنا چاہئے اور جس حد تک ممکن ہو ان سے سمجھداری سے پیش آنا چاہئے۔

دلچسپ طور پر ہمارے دماغ میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ یہ سوال چیٹ جی پی ٹی کے سامنے رکھا جائے اور یہ پوچھا جائے کہ ایسے کم فہموں کو کیا جواب دینا چاہئے جو اپنے ملک کی کامیابی کا جشن منانے کی بجائے پاکستان پر آوازے کس رہے ہیں کہ دیکھو تمہارے پرچم پر تو چاند ہے، لیکن تم چاند پر نہیں ہو، جاؤ اور اس بات پر آنسو بہاؤ۔

پاکستانی قوم کو اپنی تاریخ و ثقافت اور عالمی سطح پر مسلسل مثبت اظہارِ خیال اور گفتگو کے ساتھ ساتھ عالمی معاہدوں کی پاسداری سمیت دیگر ایسے بے شمار عوامل پر فخر ہونا چاہئے جو ہمارے قومی ہیروز کو دنیا کی دیگر اقوام سے نمایاں کرتے ہیں، نہ کہ اس بات پر افسوس کرنا کہ ہم چاند پر کیوں نہیں پہنچے؟

مانتے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے تاہم جتنے بھی ممالک آج چاند پر نہیں پہنچے اس میں کچھ ہاتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا ہے تو کچھ معاشی مسائل کا بھی ہے جن میں بھارت بھی پاکستان سے کم کم الجھا ہوا نہیں ہے۔

بھارت میں تو اقلیتوں اور دلتوں کے حقوق تک محفوظ نہیں جن پر خود بھارتی تجزیہ کار بھی سوال اٹھاتے رہتے ہیں، کیا ایسا ملک محض چاند پر جھنڈا لہرا کر تمام تر الزامات سے بری ہوجائے گا؟ ایسا نہیں ہے۔

بہرحال، جب یہ سوال چیٹ جی پی ٹی کے سامنے رکھا گیا کہ 2023 میں بھارت چاند پر جھنڈا لہرا چکا ہے اور اب پاکستان کو طعنے دئیے جارہے ہیں، ان کا کیا جواب ہونا چاہئے تو جواب یہ آیا کہ چاند کو پاکستانیوں اور بھارتیوں کی قومیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جواب یہ آیا کہ ”چاند ایک خلائی جسم ہے جہاں سے یہ جھنڈوں یا سرحدوں کی بات سمجھ میں آنے والی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے شہری چاند پر بسائی گئی بستیوں میں ایک ساتھ رہنے لگیں“۔

کیا ایسی صورت میں ایسے بھارتی شہری پاکستانیوں سے نظر ملا کر بات بھی کرسکیں گے، جنہیں وہ پرچم پر چاند کے طعنے دے رہے تھے؟

Related Posts