حزب اللہ اور ایران کیوں خاموش ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پندرہ سال سے مسلسل اسرائیل کے بدترین محاصرے کا شکار روئے زمین پر مظلوم ترین انسانی آبادی کا شہر غزہ گزشتہ چالیس دن سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سہ رہا ہے۔

اس عرصے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے لیکر سلامتی کونسل تک ہر فورم پر متعدد اجلاسوں میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری روکنے کی بات کی جاچکی ہے مگر دنیا بھر کی تمام تر منتوں، زاریوں اور مذمتوں کا نتیجہ ہنوز مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر کی صورت ہی برآمد ہوا ہے اور اسرائیل اپنے گرم و سرد، مشکل و آسانی اور دکھ سکھ کے ساتھی، نیز سرزمین مقدس پر اپنے دستِ جفا پیشہ سے سرانجام پانے والے تمام مظالم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے شریک کار امریکا کی کامل سرپرستی اور معاونت سے غزہ کی تئیس لاکھ سے زائد کی بے یار و مددگار انسانی آبادی کی نسل کشی کا سلسلہ انتہائی سفاکی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

بھری دنیا میں کوئی مددگار نہیں

اسرائیل اگر سپرپاور امریکا کی بھرپور حمایت سے غزہ پر آتش و آہن اور موت و ہلاکت کی برسات جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف غزہ کے مظلومین و محصورین کا حال یہ ہے کہ اس بھری دنیا میں ان کی حمایت میں ظالم کا ہاتھ سختی سے روکنے والا دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ وہ جس مسلم امہ سے کلمے کا رشتہ رکھتے ہیں اور جس امت مسلمہ کے قبلہ اول کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس نے بھی غزہ کے مظلوموں کو بھیڑیے کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اور تو اور امت مسلمہ میں گھوم پھر جس ایران، ترکیہ اور حزب اللہ کی طرف نگاہیں اٹھتی تھیں اور اہل غزہ کو ادنی ترین درجے میں بھی جن سے کچھ کر گزرنے کی امید تھی، انہوں نے بھی عین موقع پر خود کو برادران یوسف ثابت کرتے ہوئے عملا اسرائیل پر صرف لفظی گولا باری جاری رکھی ہوئی ہے، جس سے غزہ کے مظلوموں کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوسکتا۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ اہل غزہ کو اس میدانِ کرب و بلا میں ان کے عرب بھائیوں اور نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کاشغر مسلمان بھائیوں نے اسرائیل کی وحشیت سہنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا ہے، آج عرب ان کی مدد کو آر ہے ہیں نہ خلیفہ اردوان کی فوج، ایران و توران ان کی نصرت کو چل پڑا ہے اور نہ ہی وہ حزب اللہ جس کا مقصدِ قیام ہی اسرائیل کی تباہی اور القدس کی آزادی ہے۔

ناظرین کرام ہم آج حزب اللہ کی خاموشی پر مختصر بات کریں گے، کیونکہ فلسطین کی مقاومت و آزادی کی علمبردار حماس کے ساتھ سب سے زیادہ قربت کی وجہ سے فلسطین اور اس سے باہر پوری دنیا حزب اللہ کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔

سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ شروع ہونے کے بعد امید تھی کہ شمال مغرب میں حزب اللہ اسرائیل کو کم از کم اس حد تک انگیج رکھے گی کہ اسے دو محاذوں پر مشکل چیلنج درپیش ہوتا، مگر حزب اللہ تین نومبر تک خاموش بیٹھی رہی۔ تین نومبر بروز جمعہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے خطاب کی گونج سنائی دی تو ایک بار پھر دنیا کے کان کھڑے ہوگئے، امید تھی حسن نصر اللہ شاید فیصلہ کن معرکے کا اعلان کریں گے مگر ان کے خطاب سے یہی برآمد ہوا کہ حماس نے یہ جنگ ہماری مشاورت کے بغیر چھیڑی ہے۔

حزب اللہ سے توقعات کی وجہ

حزب اللہ سے توقعات کی بات کی جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تنظیم کے پاس واقعی اتنی طاقت ہے کہ وہ اسرائیل کو ٹف ٹائم دے سکے۔ اس کا جواب ہے جی ہاں۔ آئیے ہم آپ کو حزب اللہ کی فوجی قوت کا ایک مختصر جائزہ بتاتے ہیں۔

 

حزب اللہ کی فوجی طاقت

سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مطابق حزب اللہ کے پاس 130,000 راکٹ اور میزائل ہیں۔

ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر چھوٹے ہیں اور یہ کسی شخص کے لیے قابل نقل و حمل ہیں، یہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ان گائيڈڈ راکٹ ہیں لیکن ان میں طیارہ شکن اور جہاز شکن میزائلوں کے ساتھ ساتھ گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ ہتھیار حماس کے پاس موجود ہتھیاروں سے زیادہ ر جدید ہیں۔ جہاں تک افرادی قوت کی بات ہے تو حزب اللہ کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس 100,000 جنگجو ہیں جو شام میں جنگیں لڑنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ یوں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حماس کے مقابلے میں حزب اللہ کے پاس بڑی فوجی قوت ہے، جس میں نمایاں چیز اینٹی ایئرکرافٹ گنیں ہیں جن کی عدم موجودگی حماس کی فوجی طاقت کا سب سے کمزور پہلو ہے۔

اس کے علاوہ حزب اللہ کے کریڈٹ پر 2006 کی جنگ میں اسرائیل کو ٹف ٹائم دینے کا تجربہ بھی ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حزب اللہ اگر دل سے چاہے تو اس کیلئے اسرائیل کو سرنڈر کرنے پر مجبور کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے، مگر وہ کیوں خاموش ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ رموز مملکتِ خویش خسروان دانند! 

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حزب اللہ نے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ سودا بازی کرلی ہے، ہاں مگر انتہائی تاسف سے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حزب اللہ، ایران اور ترکیہ بھی اپنی خالی بھڑکوں کے ساتھ خود کو عرب اور باقی مسلم حکمرانوں جتنا ہی بے غیرت ثابت کر دیا ہے۔

Related Posts