عمران ریاض کون ہیں اور انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عمران ریاض کون ہیں اور انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟
عمران ریاض کون ہیں اور انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

صحافی عمران ریاض کو گزشتہ روز گرفتار کرلیا گیا جس کی مذمت نہ صرف پاکستانی عوام نے کی بلکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اِس کی سخت مذمت کی۔

اُن کی گرفتاری سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی، تاہم اصل تشویش یہی ہے کہ صحافی کون ہیں اور انہیں کیوں گرفتار کیا گیا۔

عمران ریاض

عمران ریاض 24 اگست 1975 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، انہوں نے صحافت میں اپنی گریجیوشن کی ڈگری مکمل کی اور 90 کی دہائی میں بطورِ اینکر کیریئر کا آغاز کیا۔

انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک نجی ٹی وی چینل سے کیا، جس کے بعد انہوں نے 2020 میں اپنا یوٹیوب چینل عمران خان کے نام سے شروع کیا، جس کے سبسکرائبر کی تعداد 1.5 لاکھ سے زیادہ ہے۔

گرفتاری

یہ جمعرات کی رات تھی جب اٹک کی پولیس نے صحافی عمران ریاض کو گرفتار کیا، وہ اسلام آباد جارہے تھے جب انہیں اٹک میں غداری کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔

پولیس کا مؤقف

پولیس کے مطابق صحافی پر کئی سنگین الزامات لگائے گئے ہیں، عمران ریاض کیخلاف جو ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے اُس میں اُن پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے۔

دیگر ایف آئی آر

مظفر گڑھ اور سرگودھا سمیت مختلف شہروں میں صحافی کیخلاف متعدد ایف آئی آر درج کروائی گئی ہیں، جن میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ صحافی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے جس سے پاکستانی عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

تنازع

خیال رہے کہ صحافی عمران نیاز نے گرفتاری سے ایک روز قبل اتحادی حکومت پر تنقید کی تھی، جس میں انہوں نے براہِ راست جیف آف آرمی اسٹاف کا بھی نام لیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ انھیں دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ عمران ریاض نے یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ میرے اہلخانہ کو بھی دھمکیاں موصول ہورہی ہیں۔

مذمت
صحافی کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں بشمول عمران خان، فواد چوہدری، اسد عمر، شہباز گل اور دیگر نے صحافی کی حمایت میں آوازیں بلند کیں اور اِس فعل کی مذمت کی۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان نے گرفتاری کی سخت مذمت کی اور اُس کیخلاف عوام اور میڈیا دونوں کو ساتھ کھڑے ہوکر آواز اٹھانے پر زور دیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پارٹی کارکنان ملک بھر کے پریس کلبوں کے باہر مظاہرے کرینگے، اُن کا کہنا تھا کہ صحافی کی گرفتاری اظہار رائے کو دبانے کی ایک کوشش ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر صحافی عمران ریاض خان کی جانب سے اُن کی نظر بندی کے خلاف دائر درخواست نمٹاتے ہوئے فیصلہ دیا کہ یہ کیس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

اُن کی گرفتاری کے بعد، خان کی قانونی ٹیم نے پولیس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ رات گئے ہائیکورٹ کی کارروائی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ اور چیف کمشنر کو نوٹس جاری کردیئے۔

آج کی سماعت کے دوران عمران ریاض خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اُن کے موکل کو اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا کیونکہ گرفتاری اٹک میں ہوئی، بعدازاں وکیل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

پاکستان صحافیوں کے لیے کتنا محفوظ ہے؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ایشیا پیسیفک ڈائریکٹر ڈیوڈ گریفتھس کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

گزشتہ سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں، ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے 2008 سے اپریل 2014 تک پاکستان میں جمہوری حکمرانی کی بحالی کے عرصے میں صحافیوں کے قتل ہونے کے 34 واقعات درج ہوئے ہیں۔

Related Posts