جب اسرائیل کی ناک رگڑی گئی۔ پہلی قسط

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ 26 اکتوبر 1994ء کی تاریخ تھی جب اردن اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ ہوا۔ اس امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کا احترام کریں گے۔

معاہدے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کے لئے دونوں دارالحکومتوں میں سفارتخانے بھی قائم ہوگئے تھے۔ اس پیش رفت کا ایک نہایت قابل غور پہلو یہ تھا کہ اردن حماس کے دو اہم لیڈروں موسیٰ ابو مرزوق اور خالد مشعل کا میزبان نہ تھا بلکہ حماس کا سیاسی ہیڈکوارٹر بھی وہیں واقع تھا۔ حماس کے دونوں مذکورہ رہنماؤں میں سے بالخصوص موسیٰ ابو مرزوق کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اردن کے شاہ حسین نے امریکہ سے رہا کروایا تھا۔ اور جب وہ رہائی کے بعد اردن پہنچے تھے تو شاہ حسین نے اپنے محل میں ان کا استقبال کیا تھا۔موسیٰ ابومرزوق بیک وقت پبلک ریلیشنز اور نظم نسق کے ماسٹر رہے ہیں۔ حماس کے قیام کے محض ڈھائی سال بعد 1989ء میں جب اسرائیل نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرکے اس تنظیم کو لگ بھگ پوری قیادت اور اہم افراد سے محروم کردیا تو یہ موسیٰ ابو مرزوق تھے جنہوں نے حماس کو پھر سے کھڑا کیا، اور تب تک سنبھالے رکھا جب تک اس کی باقی قیادت بھی واپس نہ آگئی۔

اس پس منظر سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ موسیٰ ابومرزوق خالد مشعل سے سینئر ہیں۔ خالد مشعل سے قبل وہی حماس کے پولیٹکل بیوروچیف تھے۔ موسیٰ ابو مرزوق کا ایک بڑا کمال یہ بھی رہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے غیرمسلموں میں فلسطین کاز کی جو حمایت پائی جاتی ہے اس کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی، اور دلچسپ بات یہ کہ یہ امریکی شہری بھی تھے۔

1997ء میں حماس نے اسرائیل میں خود کش حملے کرکے 20 اسرائیلیوں کو قتل اور سینکڑوں کو زخمی کیا تھا۔ ان دنوں بینجمن نتین یاہو ہی اسرائیل کے وزیر اعظم تھے۔ چنانچہ حماس سے انتقام کے لئے ایک اعلیٰ سطحی اسرائیلی اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ ہمیں جواباً حماس کے کسی بڑے لیڈر کو مارنا ہوگا۔ چنانچہ سوال یہ کھڑا ہوگیا کہ مارا کسے جائے؟ موساد نے دو نام پیش کئے۔ ایک خالد مشعل اور دوسرا موسیٰ ابومرزوق۔ بینجمن نیتن یاہو نے ان دونوں میں سے سینئر موسیٰ ابومرزوق کے قتل کا کہا۔ مگر موساد نے یہ کہہ کر اس سے اتفاق نہیں کیا کہ موسیٰ ابومرزوق امریکی شہری ہیں۔ خود براہِ  راست کسی عسکری سرگرمی میں ملوث بھی نہیں ہیں لہٰذا ان کے قتل سے امریکہ میں ہمارے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ امریکی ایف بی آئی امریکی شہری کے قتل کی تحقیقات اور انصاف کی فراہمی کی پابند ہوگی۔

جبکہ دوسری بات یہ کہ موسیٰ ابومرزوق اکثر زیر زمین رہتے ہیں۔ ایک ہی روٹین یا جگہ نہیں رکھتے۔ یوں انہیں تلاش کرنا اور قتل کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔ جبکہ خالد مشعل اردن کے دارالحکومت عمان میں 24 گھنٹے ہماری سرویلنس میں ہیں۔ وہ آسان ٹارگٹ ہیں، نشانہ بنانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ یوں نیتن یاہو کی جانب سے خالد مشعل کے قتل کا حکم جاری ہوگیا۔ اس حکم سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی آج بھی اپنی اسی روایت پر قائم ہیں جس کا ذکر قرآن مجید بار بار کرتا ہے۔ یہ کہ وعدہ کرو تو نبھاؤ مت، معاہدہ کرو تو اس کا احترام مت کرو۔اسرائیل نے صرف 3 سال قبل اردن سے امن معاہدہ کیا تھا اور اب یہ اردن کی ہی سرزمین پر اس کی دھجیاں اڑانے جا رہے تھے۔

موساد کے اس وقت کے سربراہ ڈینی یاتون کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہ اقدام امن معاہدے پر ہی حملہ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے اس واردات کے لئے “بے آواز قتل” کی حکمتِ عملی کی اختیار کی۔ قتل کے لئے بارود کی بجائے زہر کے استعمال کا فیصلہ ہوا اور طے پایا کہ پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جائے گا۔اس قتل کے لئے ایسا زہر استعمال ہونا تھا جو پہلے 24 گھنٹوں کے دوران متاثرہ شخص کو کچھ نہیں کہتا۔ 24 گھنٹے بعد یہ دماغ کو ہدف بنا کر پہلے متاثر شخص کو کومے میں پہنچاتا ہے اور پھر حملے کے 48 گھنٹے بعد یہ پورے دماغ کو ختم کرکے متاثرہ شخص کی جان لے لیتا ہے۔اس حملے کے لئے 6 ارکان پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی۔ ٹیم کے ارکان کینیڈا کے جعلی پاسپورٹوں کی مدد سے ٹورنٹو، ایمسٹرڈیم اور پیرس سے اردن پہنچے تاکہ ان میں کوئی اشتراک نظر نہ آسکے۔

یہ 25ستمبر 1997ء کی تاریخ تھی جب خالد مشعل معمول کے مطابق اردن کے دارالحکومت عمان کی ایک کمرشل عمارت میں واقع اپنے دفتر کے لئے صبح دس بجے گاڑی سے اترے اور آگے بڑھے۔ بلڈنگ کے داخلی راستے پر دو مشکوک افراد پہلے سے ان کے منتظر تھے۔ خالد مشعل نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے انہیں بھانپ لیا تھا مگر اس کے باوجودرسک لیا کہ ہفتے کا دن ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کے سکول کی چھٹی تھی، سو وہ بھی ساتھ تھے۔ خالد مشعل دونوں مشکوک افراد کے سامنے سے گزرے تو ان دونوں میں سے ایک نے حملہ کردیا۔ حملے کی نوعیت سے متعلق خود خالد مشعل کا کہنا ہے:

”اس نے کوئی ڈیوائس استعمال کی تھی۔ اس سے میرے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا تھا اور نشانہ چونکہ میرا بایاں کان تھا سو کان میں ایک بہت عجیب سی تیز آواز گونجی تھی۔ اور ایسا کرتے ہی وہ دونوں بھاگ گئے۔ میں یہ تو سمجھ گیا تھا کہ یہ حملہ ہوا ہے مگر مجھے نہ گولی ماری گئی تھی اور نہ ہی کوئی تیز دھار آلے سے زخمی کیا گیا تھا، سو چند لمحے بعد میں بالکل ٹھاک کھڑا تھا، اور حیران تھا کہ یہ کیا تھا؟“

خالد مشعل کے ساتھ ایک ہی غیر مسلح باڈی گارڈ تھا۔ اس نے دونوں حملہ آواروں کو دھکیل کر زمین پر گرادیا تھا مگر جب وہ اٹھ کر دوڑے تو اس نے تعاقب کی بجائے خالد مشعل کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ مگر حسن اتفاق کہ عین اسی وقت خالد مشعل کا دوسرا گارڈ محمد ابوسیف اپنی کار میں آپہنچا جو اس روز ڈیوٹی پر نہ تھا۔ اس نے حملہ آوروں کو فرار ہوتے دیکھا تو تعاقب شروع کردیا۔حملہ آور پہلے سے منتظر کرائے کی ہنڈائی کار میں تیزی سے سوار ہوئے اور ڈرائیور نے کار دوڑا دی۔ ابوسیف نے پیچھے سے آنے والی ایک کار کو روکا اور اس میں سوار ہوکر تعاقب جاری رکھا۔ کہنے کو تو موساد بہت تیز طرار ایجنسی بنتی ہے مگر اس کے ایجنٹ اس روز اندازہ ہی نہ لگا سکے کہ ان کا تعاقب ہو رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جائے واردات سے دور جا کر ان کی کار رکی۔ دونوں حملہ آوار کار سے اترے اور پیدل گلیوں میں روپوش ہونے کو آبادی کی جانب بڑھ گئے۔ ہوش ان کے تب اڑے جب اچانک ابوسیف کے ان کے سروں پر آپہنچا۔ یوں انہوں نے دوڑ تو لگائی مگر بات بن نہ سکی۔ سو شاہراہ کے کنارے ایک نالے میں ان کی دست بدست لڑائی شروع ہوگئی۔ ابوسیف جانتا تھا کہ دونوں کو قابو کرنا ممکن نہ ہوگا لہٰذا کسی ایک کا ہاتھ آنا ضروری ہے۔ مگر جب وہ ان میں سے کسی ایک کو قابو کرنے کی کوشش کرتا تو دوسرا بھاری پتھر سے اس کے سر پر وار شروع کردیتا۔ اس کوشش میں ابو سیف بری طرح زخمی ہوچکا تھا۔ نالے کے کنارے پر لوگ بھی جمع ہوچکے تھے مگر سب اس کے باوجود محض تماشائی بنے رہے کہ ابوسیف چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا:

”یہ موساد کے ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے خالد مشعل کو قتل کردیا ہے۔ پلیز انہیں پکڑو۔“

ایک بار پھر خوش بختی نے ساتھ دیا۔ عین اسی وقت اس مقام سے ٹیکسی میں پی ایل او کے ایک اہم ذمہ دار سعد الخطیب کا گزر ہوا۔ نالے کے کنارے رش دیکھ کر انہوں نے ٹیکسی رکوائی کہ دیکھیں تو ہو کیا رہا ہے۔ جب انہوں ابوسیف کو موساد ایجنٹوں اور خالد مشعل پر حملے کا شور مچاتے سنا تو فوراً  نالے میں کودے اور ابوسیف کی مدد شروع کردی، اور یوں یہ دونوں ایجنٹ قابو آگئے، اور اب اگلے چند گھنٹوں میں اسرائیل کا عالمی سٹیج پر تماشا لگنے کو تھا۔ (جاری ہے)

Related Posts