جب اسرائیل کی ناک رگڑی گئی۔آخری قسط

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

موساد کے اس وقت کے چیف ڈینی یاتون کہتے ہیں:

”میں نے اس روز ایک ہی دن میں دو متضاد دعائیں مانگیں۔ آپریشن سے قبل دعا یہ تھی کہ خالد مشعل مارا جائے اور ہم کامیاب ہوں۔ اور آپریشن کے بعد مجھے اس دعاء پر مجبور ہونا پڑا کہ اے خدا خالد مشعل کو کچھ ہو نہ جائے۔“

اردن نے اسرائیل سے تین چیزیں طلب کی تھیں۔

1۔ تریاق۔

2۔ زہر کی پوری تفصیل۔ 

3۔وہ ڈیوائس جس کے ذریعے زہر دیا گیا تھا۔

اسی رات اسرائیل سے آنے والا ایک چھوٹا طیارہ عمان میں لینڈ کرگیا۔ اسرائیل نے تریاق اور ڈیوائس تو فراہم کردیئے مگر زہر کی تفصیلات دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ ہمارا قومی راز ہے جس کا افشا جرم ہے۔ اسرائیل پر صرف اخلاقی دباؤ نہ تھا بلکہ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اسی روز شاہ حسین کے حکم پر اردن کے سیکیورٹی ادارے عمان میں واقع اسرائیلی سفارتخانے کو محاصرے میں لے چکے تھے۔ کسی کو بھی اردنی حکام کی اجازت کے بغیر وہاں آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ اسرائیلی سفیر کو شاہی محل طلب کرکے بتا دیا گیا تھا کہ اگر رات بارہ بجے تک تریاق نہ پہنچا تو سیکیورٹی فورس سفارتخانے پر چڑھائی کردے گی۔ جواباً اسرائیلی سفیر نے کہا: 

”جنیوا ایکارڈ کے مطابق ہمارا سفارتخانہ اسرائیل کی سرزمین ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق آپ اس پر چڑھائی نہیں کرسکتے۔“

میجر جنرل علی شکری نے کہا:

”جب ثابت ہوچکا ہو کہ سفارتخانے نے مجرموں کو پناہ دے رکھی ہے تو پھر جنیوا ایکارڈ اسے تحفظ فراہم نہیں کرتا۔“

یہ بات طے تھی کہ موساد ٹیم کے باقی ممبرز وہیں تھے۔ خودموساد کے انٹیلی جنس چیف ڈینی یاتون اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

”جب میں کنگ حسین سے ملنے اردن گیا تھا تو اس موقع پر اپنے سفارتخانے بھی گیا۔ میں وہاں ٹیم کے باقی ممبرز سے ملا، وہ بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں حوصلہ دیا کہ ڈرو مت، سب ٹھیک ہوجائے گا۔“

ادھر ہسپتال میں ڈاکٹرز کی ٹیم خالد مشعل کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی۔ اس ٹیم کی سربراہی شاہ حسین کے ذاتی معالج ڈاکٹر یوسف گوسوس کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں:

”علامات سے یہ تو واضح تھا کہ خالد کے دماغ کے رسپرٹوری سینٹر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کیونکہ وہ بے ہوش بھی تھے اور انہیں سانس لینے میں بھی مشکل پیش آرہی تھی، مگر یہ واضح نہیں ہو رہا تھا کہ استعمال کیا چیز ہوئی ہے کہ اس کا حل نکالا جاسکے۔“

سو ڈاکٹرز اندازے پر چلے کہ جو بھی چیز استعمال ہوئی ہے وہ مورفین سے ملتی جلتی تاثیر رکھتی ہے۔ یوں ڈاکٹرز نے علاج کے لئے وہی راہ اختیار کی جو مورفین کی اوور ڈوز کی صورت اختیار کی جاتی ہے۔ اسی دوران جب نصف شب کے قریب تریاق آپہنچا تو ڈاکٹرز کی ٹیم اس کی شیشی دیکھ کر چونک گئی۔ شیشی پر دوا کا نام  ”ایڈرینالائن“ درج تھا مگر اس میں موجود مادہ نام سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔چنانچہ فوری طور پر اسے لیبارٹری بھیجا گیا تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ ہے کیا؟ لیبارٹری سے رپورٹ آئی تو مادہ  نارکن نکلا۔ یہ وہی دوا تھی جو میڈیکل ٹیم پہلے ہی خالد مشعل کو دے چکی تھی۔ نام کے اس دھوکے سے موساد شاید ڈاکٹرز کو تریاق کی نوعیت کے حوالے سے اندھیرے میں رکھنا چاہتی تھی۔ تاکہ جو زہر اسرائیل کا نام نہاد ”قومی راز“ تھا اس کے اصل توڑ کا کسی کو پتہ نہ چلے۔ اگلے دن خالد مشعل کومے سے باہر آگئے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگتا تھا جیسے کسی بہت طویل علالت سے اٹھے ہوں۔

اس پوری صورتحال میں ایک اہم چیز یہ رہی کہ اردنی حکام کی جانب سے اسرائیل و امریکہ سے چلنے والی کشیدہ بات چیت و مطالبات کی تفصیل کو میڈیا سے چھپایا گیا۔ یہ جنگ اردن سات پردوں کے پیچھے لڑ رہا تھا۔ قوم اور حماس کو بس اتنا پتہ تھا کہ کنگ حسین نے خالد مشعل پر حملے کے حوالے سے ایک تقریر کی ہے اور اسرائیلی سفارتخانہ سیکیورٹی فورسز کے محاصرے میں ہے۔ چنانچہ جب رندہ حبیب نے اپنے ذرائع سے تریاق اور ڈیوائس حاصل ہونے کی خبر حاصل کرکے میڈیا کو جاری کی تو اردن کی وزارتِ اطلاعات نے اس کی تردید کردی۔

خالد مشعل کی ریکوری کے ساتھ ہی اردن اور اسرائیل کے معاملے نے دوسرا رُخ اختیار کرلیا۔ اب تک تو ساری بھاگ دوڑ اردن کر رہا تھا تاکہ اسرائیل سے تریاق حاصل کرکے خالد کی جان بچائی جاسکے۔ اب بھاگ دوڑ کی باری اسرائیلی کی تھی جو اپنے زیر حراست ایجنٹس کی رہائی مانگ رہا تھا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ پورے قاتل دستے کو اردن سے نکلنے دیا جائے۔ جواباً اردن نے یہ مؤقف اختیار کرکے نیتن یاہو کے ہوش اڑا دیئے کہ قیدی تو قیدیوں کے بدلے دیئے جائیں گے۔ شاہ حسین نے 50 اردنی و فلسطینی قیدیوں کی رہائی مانگ لی تھی۔ مگر یہ کوئی عام قیدی نہ تھے۔

قیدیوں کی لسٹ میں سب سے ٹاپ پر حماس کے بانی رہنما شیخ احمد یٰسین کا نام تھا۔ شیخ احمد یٰسین 1989ء سے اسرائیل کی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ یوں گویا اردن نے طے کر لیا تھا کہ وہ اسرائیل سے موساد کے حملے کی بھاری قیمت وصول کرے گا۔ اسرائیلی صحافی رونین برگمین اس حوالے سے بہت دلچسپ مؤقف رکھتے ہیں:

”یہ اسرائیل کے لئے بہت ہی نازک وقت تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ دو موساد ایجنٹس کو جتنا جلد ممکن ہو، رہا کروانا ضروری ہے۔ اس میں تاخیر خطرناک ہوگی۔ میں نیتن یاہو کا فین نہیں ہوں لیکن اسرائیل میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ پریشر میں درست فیصلے نہیں کرسکتا، میں اس سے اتفاق نہیں رکھتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمان والا آپریشن ہونا ہی نہیں چاہئے تھا، وہ غلط تھا۔ لیکن جب کر لیا گیا اور پکڑے گئے تو اب قیدیوں کی رہائی کے لئے ہر قیمت ادا کرنی چاہئے تھی۔ مگر یہ بات بھی درست ہے کہ شیخ احمد یٰسین کی رہائی نے اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔“

اب مزے کی ایک اور بات دیکھئے۔ اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے لئے تو تیار ہوگیا تھا مگر بینجمن نیتن یاہو نے اس عمل کے لئے اسرائیل کا جو نمائندہ چنا وہ کوئی اور نہیں بلکہ خونخوار درندہ ایریل شیرون تھا۔ جو اس وقت اسرائیل کا انفراسٹرکچر امور کا وزیر تھا۔ علی شکری قیدیوں کے تبادلے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں: 

”انہوں نے شروع میں پوری لسٹ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ان سب کے ہاتھ اسرائیلیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔“ میں نے جواباً کہا، فلسطین میں ایسا کون ہے جس پر تمہاری طرف سے یہ الزام نہ ہو؟ اپنے دو قیدی لینے ہیں تو ہماری لسٹ یہی رہے گی۔ یہ لسٹ منظور نہیں تو اپنے دو ایجنٹ بھول جاؤ۔“ سو وہ مان گئے اور تمام قیدی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے عمان پہنچا دیئے۔ اور یوں اس ڈیل کا نام ہیلی کاپٹر ڈپلومیسی پڑ گیا۔“

خالد مشعل پر حملے کے پانچویں روز 30 ستمبر 1997ء کو رات کا وقت تھا جب عمان کے الحسین میڈیکل سٹی میں ایک ہیلی کاپٹر لینڈ ہو رہا تھا۔ اس ہیلی کاپٹر کے استقبال کے لئے اردن کے شاہ حسین خود موجود تھے۔ ہیلی کاپٹر اترا اور اس کے دروازے کھلے تو شاہ حسین پہلے شخص تھے جو اس ہیلی کاپٹر میں داخل ہوئے اور سٹیچر پر لیٹے شیخ احمد یٰسین کو بوسہ دیا۔ اس کے فوراً  بعد انہیں آئی سی یو منتقل کردیا گیا۔

اس پورے معاملے کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس رازداری سے چل رہا تھا کہ حماس تک کو پتہ نہ تھا کہ پردوں کے پیچھے اتنی بڑی سرگرمی جاری ہے۔ وہ ہر چیز سے بے خبر تھے۔ انہیں سب تب بتایا گیا جب شیخ احمد یٰسین کچھ ہی دیر میں الحسین میڈیکل سٹی پہنچنے والے تھے۔ چنانچہ ہیلی کاپٹر کے ہسپتال پہنچنے کی تفصیل خالد مشعل کچھ یوں بتاتے ہیں: 

”میں نے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی تو اپنے ساتھیوں سے کہا، مجھے بالکونی تک لے جاؤ۔ وہ مجھے سہارا دے کر بالکونی تک لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ سامنے ہی ہیلی کاپٹر لینڈ کر رہا تھا۔ قریب ہی شاہ حسین استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ ہیلی کاپٹر کے انجن بند ہوئے تو شاہ حسین آگے بڑھے اور شیخ احمد یٰسین کا استقبال کیا۔“

شیخ احمد یٰسین کو آئی سی یو پہنچا دیا گیا تو شاہ حسین نے وہاں جا کر ان کی باقاعدہ تیمارداری کی۔ شیخ یٰسین نے شاہ حسین سے کہا:

”مجھے اردن لانے سے خطرہ ہے کہ مجھے اپنی باقی ساری زندگی یہیں جلاوطنی میں گزارنی پڑے گی۔ میں اپنی سرزمین پر جینا چاہتا ہوں۔“

شاہ حسین نے جواب دیا:

”ایسا نہیں ہوگا، آپ وہیں رہیں گے جہاں آپ چاہیں گے۔ کوئی بھی آپ کو غزہ جانے سے نہیں روک سکتا۔“

اس کے بعد پہلی بار شاہ حسین نے میڈیا سے گفتگو کی اور کہا:

” ہم سب بہت خوش ہیں۔ شیخ احمد یٰسین اپنے دوسرے گھر پہنچ گئے ہیں۔ میں نے فلسطینی صدر یاسر عرفات کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ وہ بھی بہت خوش ہیں۔ علاج معالجے تک شیخ یہیں رہیں گے، اور اس کے بعد وہ غزہ یا جہاں بھی وہ چاہیں جاسکیں گے۔“

اگلے دن حماس کے رہنما ہی اپنے قائد سے نہ ملے بلکہ یاسر عرفات بھی الحسین میڈیکل سٹی پہنچے اور شیخ احمد یٰسین کو رہائی کی مبارکباد دی۔ اسی دن عمان میں واقع اسرائیلی سفارتخانے کا محاصرہ ختم کردیا گیا۔ ایک ہفتے بعد علاج مکمل ہونے پر شیخ احمد یٰسین اردن کے فوجی ہیلی کاپٹر میں غزہ منتقل ہوگئے۔ اس واقعے نے حماس کی مقبولیت آسمان پر پہنچادی۔ نتیجہ یہ کہ فلسطین کے منظر نامے پر وہ چھاتی اور الفتح موومنٹ اپنی پوزیشن کھوتی چلی گئی۔ جبکہ اسرائیل اور اس کی موساد کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنہ سے بھی بڑھ کر شرمناک تھی۔ موساد دنیا بھر میں مذاق بن گئی تھی کیونکہ یہ موساد ہی تھی جس کے ایجنٹوں نے اسرائیل کی ناک رگڑوا ہی نہیں، کٹوا بھی دی تھی۔ (ختم شد)

Related Posts