ن لیگ اور قومی کرکٹ ٹیم میں کیا مشترک ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ن لیگ اور قومی کرکٹ ٹیم میں کیا مشترک ہے ؟
ن لیگ اور قومی کرکٹ ٹیم میں کیا مشترک ہے ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے ایک پیارے فیس بک فرینڈ ہیں ، بڑے پرجوش اور دھواں دھار قسم کے ن لیگی ہیں۔پچھلے دنوں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ن لیگ میں ایسی کون سی خامیاں ہیں جسے دور کرنا چاہیے ؟

ان کے سوال پر میں سوچتا رہا۔ ایک دو دن کے بعد انہیں ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ ن لیگ کے وہی مسائل ہیں جوپاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ہیں۔ اس ایک فقرے کے جواب پر وہ بڑے چکرائے کہ کرکٹ ٹیم اور سیاست کا کیا سمبندھ ؟اس پر انہیں تفصیل سے جو سمجھایا، وہ آج کے بلاگ میں بھی بیان کرتا ہوں۔

سب سے پہلے پاکستانی کرکٹ ۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جائزہ لیں تو دو تین نمایاں خامیاں نظر آتی ہیں۔ اہم ترین یہ کہ ہماری کرکٹ ٹیم ابھی تک نوے کے عشرے کی کرکٹ کھیل رہی ہے، اس میں وہی تمام اجزا موجود ہیں جو تب دنیا بھر کی اچھی کرکٹ ٹیموں میں شامل ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے آج دنیا کی اچھی ٹیمیں اپنے پرانی ریسیپی یا نسخہ کو بدل چکی ہیں، اس میں بہت کچھ نیا شامل ہوا اور پرانے فارمولے ، ٹوٹکوں سے جان چھڑائی جا چکی ہے۔ ہم مگر آج بھی اسی پرانے سٹائل سے کھیلتے ہیں۔

بات کو مزید کھولتے ہیں۔ آج دنیا کی تین بہترین کرکٹ ٹیموں کانام لیا جائے تو انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت آئیں گی۔ دلچسپ بات ہے کہ پچھلے تین ون ڈے ورلڈ کپ انہی تینوں ٹیموں نے جیتے۔ ٹیسٹ ، ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی تینوں فارمیٹس میں یہ بہت اچھی اور مضبوط ٹیمیں ہیں۔ آسٹریلیا نے ابھی چند ماہ پہلے ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا۔ ان تین ٹیموں کے علاوہ نیوزی لینڈ کا نام بھی لے سکتے ہیں۔یہ بھی اچھی مضبوط ٹیم ہے۔

ان سب ٹیموں کی خاص بات ان کی جارحانہ انداز کی کرکٹ ہے۔ انہوں نے پچھلے چند برسوں میں اپنے سٹائل کو مکمل طور پر بدل لیا۔ پرانے سٹائل کی ٹک ٹک کرکٹ اور آدھے اوورز تک وکٹ بچانے کی کوشش میں کم رن ریٹ سے کھیلنے کے بجائے ان کے پاس ابتدا ہی سے دھواں دھار کھیلنے والے بلے باز ہیں۔جو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں دس کے رن ریٹ سے سٹارٹ کرتے ہیں اور بیس اوورز میں دو سو سے زیادہ بڑا ٹارگٹ سیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ جارحانہ کرکٹ انگلینڈ نے 2015ورلڈ کپ کے بعد شروع کی تھی۔ دیگر اچھی ٹیموں نے اس کی پیروی کی ۔انہوں نے یہ جارحانہ انداز ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنایا اور ایسے اچھی تکنیک والے جارحانہ بلے بازوں کو ٹیسٹ میں موقعہ دیا جو ایک دن میں تین ساڑھے تین سو رنز بنا ڈالیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فتوحات کی شرح بہت بڑھ گئی۔

ان کی دوسری نمایاں خوبی اچھے ٹیلنٹڈ نوجوان کھلاڑی ڈھونڈنا ، انہیں مواقع دینا اور ان پر اعتماد کرنا ہے۔ گراس روٹ لیول کی کرکٹ انہوں نے مضبوط کر رکھی ہے، اس لئے سسٹم سے اچھے اور بڑے کھلاڑی تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔

ان کی تیسری خوبی ٹیم پر بوجھ بنے کھلاڑیوں سے جان چھڑا لینا ہے۔ اس ضمن میں بڑے بڑے ناموں کا لحاظ بھی نہیں کیا گیا۔ جو کھلاڑی اچھا نہیں کھیل رہا، خواہ وہ کتنا بڑا اور نامور ہو، یہ ٹیمیں اسے باہر بٹھا دیتی ہیں۔
چوتھی خوبی جدت اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ میچ جیتنے کے لئے انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا اور مخالف ٹیموں کی کارکردگی کا سائنسی بنیاد پر تجزیہ کر کے بہت سا مفید ڈیٹا اکھٹا کیا۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پراہم فیصلے کئے جاتے ہیں۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ان خوبیوں کا فقدان ہے۔ ہم آج بھی پرانے سٹائل کی دفاعی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ہمارے پاس اچھی تکنیک والے جارحانہ بلے باز نہیں۔ جارحیت کے نام پر ہم ٹلے باز کھلاتے ہیں جو دو چار میچز کے بعد فیل ہو کر باہر ہوجاتے ہیں۔

ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ جارحیت سے مراد ہوش وحواس کھو دینا نہیں۔ آج بھی پاکستانی کھلاڑی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں وکٹیں بچانے کے چکر میں آدھا میچ سست کھیلیں گے، رن ریٹ اتنا کم ہوگا کہ بعد میں اسے تیز کرتے ہوئے پوری ٹیم ڈھیر ہوجائے گی۔ ٹیسٹ میں ہم نہایت دفاعی اور سست انداز سے کھیلتے ہیں، اچھی بھلی پچ پر بھی دن بھر میں ڈھائی سو سے زیادہ رنز نہیں بن پاتے۔

ہماری ہر فارمیٹ کی ٹیم میں دو تین جونکیں ایسی ہیں جوبرسوں چمٹی رہتی ہیں۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ ان کی بری کارکردگی کے باوجود انہیں ڈراپ کر سکے۔ اظہر علی اچھا نہ کھیلے پھر بھی اسے کھلاتے جائیں گے۔ اسد شفیق کو مکمل ناکام ہونے کے باوجودڈیڑھ دو سال کھلاتے رہے۔

سرفراز احمد سے کچھ نہیں ہو رہا تھا، مگر اسے کھلاتے جا رہے تھے۔ ابھی تک اسے بیک اپ کے طور پر رکھا ہوا ہے، ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ حسن علی جیسا چلا ہوا کارتوس بار بار کھلایا جاتا اور ہر بار ناکام ہو رہا ہے۔

ہمارے سسٹم سے غیر معمولی کھلاڑی سامنے نہیں آتے،بابر اعظم ایک استثنا ہے، باقی اکثر کھلاڑی پی ایس ایل سے آئے اور وہ بھی ٹی ٹوئنٹی کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ ہمارے پاس کئی برسوں سے کوئی کوالٹی سپنر نہیں ، ہم نے اس کے لئے کوشش بھی نہیں کی۔

حال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ شاہین آفریدی چھ ماہ کے لئے ٹیم سے باہر ہوجائے تو ایک بھی ڈھنگ کا فاسٹ باﺅلر نہیں ہوگا، یہی بات بابر اعظم کے لئے کہی جا سکتی ہے۔ جو ٹیم صرف دو تین کھلاڑیوں کے دم پر کھیل رہی ہو، وہ کیسے اچھی ٹیم کہلا سکتی ہے؟ہماری ٹیم میں جدت اورٹیکنالوجی کا استعمال بھی اس طرح نہیں۔ اگر ہوتا تو حالیہ سری لنکا ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ میںپاکستان تین فاسٹ باﺅلرز کے ساتھ کیوں کھیلتا؟

یہ تو ہوئی کرکٹ کی بات۔ اب سیاست کو لے لیں، خاص کر مسلم لیگ ن کی سیاست کو۔

مسلم لیگ ن بھی قومی کرکٹ ٹیم کی طرح نوے کے عشرے کی سیاست کر رہی ہے۔ وہی پرانی تکنیکس، پرانے حربے، پرانے سٹائل کی چالیں اور پبلسٹی کے ازکار رفتہ بوسیدہ طریقے ۔

ن لیگ کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت تحریک انصاف کہاں سے کہاں چلی گئی۔ اس نے مین سٹریم میڈیا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا، وہ یو ٹیوبرز سے ٹک ٹاکرز تک جا چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے جلسوں کا رنگ ڈھنگ ہی بدل ڈالا۔ اب مولانا فضل الرحمن تک اس کی کاپی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لئے لکھے گیتوں کو گانے کے لئے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی سے ابرار الحق اور جنون کے سلمان احمد جیسے جدید سینس رکھنے والے گلوکار موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن ابھی تک شوکت علی مرحوم کے گانوں” میاں دے نعرے وجن گے “میں مست اور خوش ہے۔ تحریک انصاف کے جلسوں، اجتماعات میں استعمال ہونے والا میوزک اورگلیمرس فنکار دیکھ لیں اور ن لیگ کے مضحکہ خیز” اللہ رکھا پیپسی والا“ کے کام سے موازنہ کر لیں، جس پر بے شمارطنزیہ ، مزاحیہ میمز، پیروڈی اور ٹک ٹاک ویڈیوز بن چکیں۔

مسلم لیگ ن میں آج بھی کئی جونکیں چمٹی ہیں۔ پرانے ، گھسے پٹے چلے ہوئے کارتوس صف اول ، دوم میں براجمان ہیں ۔ کسی میں ہمت نہیں کہ پارٹی سٹرکچر تبدیل کیا جائے ، کچھ نئے پرکشش صاف ستھرے چہرے سامنے لائے جائیں۔

مسلم لیگ ن کو پریشانی ہے کہ نوجوان ووٹ جو کئی ملین بلکہ کروڑوں میں ہوچکا ہے، وہ تحریک انصاف کا رخ کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے تحریک انصاف کے جگمگاتے ، روشن چہرہ کے مقابلے میںن لیگ کچھ تو نیا کوالٹی سٹف سامنے لے آئے ۔ پرانی شراب کو نئے ساغر ہی میں پیش کریں۔ کچھ کریں تو سہی۔ لے دے کر عطااللہ تارڑ ہے جو چہرے سے کسی روایتی ، تھکی ہوئی مذہبی جماعت کاتحصیل سطح کا رہنما لگتا ہے۔

تحریک انصاف کی قوت بیانیہ بنانا ہے، ن لیگ کے پاس بیانیہ ہے ہی نہیں۔ جو ہے وہ ناکافی، غیر تسلی بخش اور غیر موثر ۔ مجھے ایک اور ن لیگی دوست کی بات یاد آئی، بڑے تاسف سے انہوں نے کہا کہ ن لیگ کو اگر رمضان کے فضائل بیان کرنے پڑیں تو ان سے یہ بھی نہیں ہوں گے، عمران خان اگر سادہ فاقے کی تعریف کرے تو اسے یوں گلوریفائی کر دے گاکہ لاکھوں، کروڑوں نوجوان ہفتے میں دو تین دن فاقہ کرنے کا سوچنے لگیں گے۔

بیانیہ اس لئے نہیں بن رہا کہ نئی سوچ، جدت پر مبنی تخئیل،آﺅٹ آف باکس فیصلے کرنی کی قوت اور ہمت کسی میں نہیں۔ بس پرانے نوے کے عشرے کی سیاست کر رہے ہیں۔ تب ان کا مقابلہ اسی پچاسی سالہ غلام اسحاق خان سے تھا یا پیپلزپارٹی تھی جسے اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور اینٹی بھٹو قوتوں نے پہلے ہی خاصا داغ دار بنا دیا تھا۔ پہلی بار انہیں عمران خان کی صورت میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے ہیں۔

یہی وہ غلطی ہے جو پاکستانی کرکٹ ٹیم کرتی چلی جا رہی ہے۔ صرف بابراعظم، شاہین شاہ، رضوان کی مدد سے بڑا ٹورنامنٹ نہیں جیتا جا سکتا۔ن لیگ کی بدقسمتی کہ ان کے پاس بابر، شاہین ، رضوان بھی نہیں۔

Related Posts