سپریم کورٹ میں کیا ہوا، کیسا فیصلہ آ سکتا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سپریم کورٹ میں کیا ہوا، کیسا فیصلہ آ سکتا ہے؟
سپریم کورٹ میں کیا ہوا، کیسا فیصلہ آ سکتا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سپریم کورٹ میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود (سوموٹو)نوٹس کیس میں اہم پیشرفت ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس عطا بندیال صاحب نے نو رکنی لارجر بنچ بنایا تھا، جس پر حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے بعض اعتراضات کئے گئے تھے،اس بنچ کے دو فاضل جج صاحبان پر باقاعدہ اعتراض کیا گیا،بعض بارکونسلز بھی یہ اعتراض کر رہی تھیں۔ بنچ میں شامل بعض جج صاحبان نے بھی یہ اعتراض کیا تھا۔ خیر اب نو رکنی لارجر بنچ سے چار جج صاحبان الگ ہوچکے ہیں، اس وقت پانچ رکنی بنچ کیس سن رہا ہے، جس کی قیادت چیف جسٹس آف پاکستان کر رہے ہیں۔

کون الگ ہوا اور کیوں ؟
چار جج صاحبان جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ سے الگ ہوچکے ہیں۔ جبکہ موجودہ بنچ پانچ جج صاحبان پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل ۔ یہ بنچ کیس کی سماعت کل کرے گا اور چیف جسٹس نے عندیہ دیا ہے کہ ممکن ہوا تو کل ہی یا بہت جلد فیصلہ کر دیں گے کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔(ویسے بھی نوے دنوں میں الیکشن اگر کرانا ہے تو پھر مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔)
سپریم کورٹ میں چیف صاحب کے تیئس فروری کے تحریری حکم اوراس پر چار جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کوستائیس فروری کے تحریری حکم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔ان کے اختلافی نوٹ پر آگے جا کر بات کرتے ہیں۔ (یاد رہے کہ اکثر بیشتر سینئروکلا کا اندازہ یہی تھا کہ یہ چار جج صاحبان ایسے ہیں جن کی رائے یا جیورس پروڈنس چیف جسٹس سے مختلف ہے۔)

یہ تمام معاملہ شروع کیسے ہوا ؟
اس پورے معاملے کو سمجھنے کے لئے پس منظر جاننا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ پتہ چلے کہ آخر اعتراضات کیوں کئے گئے اور ان کا جواب کیا دیاگیا۔ یہ کیس لاہور کے سینئر پولیس افسر(CCPO)غلام محمد ڈوگر کے تبادلے سے شروع ہوا۔ پنجاب کی نگران حکومت نے آتے ہی ڈوگر صاحب کا تبادلہ کر ڈالا ، بہت سے دیگر تبادلے بھی کئے۔یاد رہے کہ عام طور سے نگران حکومتیں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرتیں تاکہ ان کی غیر جانبداری برقرار رہے اور یہ تاثر نہ ملے کہ چند خاص افسروں کو مخصوص جگہوں پر نگران حکومتیں لا رہی ہیں۔
خیر ڈوگر صاحب کا تبادلہ ہوا تو انہوں نے اس پر عدالت سے رجوع کیااور معاملہ سپریم کورٹ کے ایک بنچ تک پہنچا جس کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے، ان کے ساتھ جسٹس مظاہر نقوی تھے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں عام طور سے دو رکنی بنچ ہی بنائے جاتے ہیں، سنگل جج چیمبر اپیل سنتا ہے۔

سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے ڈوگر صاحب کے وکلا نے نگران حکومت کے اختیارات سے تجاوز کا معاملہ پیش کیا۔ کیس کی سماعت میں یہ نکتہ بھی آیا کہ نگران جس کام کے لئے آئے ہیں، وہ کر نہیں رہے ، یعنی الیکشن کرانے کا کوئی پروگرام ہی نہیں لگ رہا اور وقت تیزی سے گزرا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو بھی اس معاملے میں طلب کیا اور پھر فاضل جج صاحبان کو اندازہ ہوا کہ معاملہ خاصا گمبھیر ہے کیونکہ آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے دنوں کے اندر الیکشن کرانا لازمی ہے مگرچار ہفتے گزر چکے ہیں، ابھی تک الیکشن شیڈول کا اعلان ہی نہیں ہوا۔ ان جج صاحبان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا کہ یہ مفاد عامہ اور آئینی حقوق کی پامالی کا معاملہ لگ رہا ہے، اس لئے آپ سوموٹو نوٹس لے کر لارجر بنچ بنائیں۔

دو رکنی بنچ نے خط کیوں لکھا؟
ایسا اس لئے کیا گیا کہ سو موٹونوٹس لینے کا حق اور اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ نے خود ہی یہ ضابطہ بنایا ہے، اس پر اگرچہ تنقید ہوتی رہتی ہے کہ فرد واحد کو یہ اختیار نہیں دینا چاہیے اور ایسا اختیارتین سینر موسٹ ججز کے پاس ہونا چاہیے، یہ مگر صرف رائے کی حد تک ہے اور عملی طور پر یہ اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے ، اس لئے کسی جج کو جب یہ لگے کہ کوئی معاملہ اہم نوعیت کا ہے اور اس میں سوموٹو لینا چاہیے تو وہ چیف جسٹس کے نام خط لکھ دیتاہے، پھر چیف جسٹس کی مرضی کہ وہ لارجر بنچ بنائیں یا نہ بنائیں۔

یہ بھی سمجھ لیں کہ پانچ رکنی بنچ فل بنچ کہلاتا ہے اور اس سے زیادہ یعنی چھ، سات ،نو ، دس ، گیارہ ججز پر مشتمل بنچ لارجر بنچ کہلاتا ہے جبکہ اگر پوری سپریم کورٹ (چودہ، پندرہ، سترہ جتنے بھی اس وقت جج ہوں)پر مشتمل بنچ بنے تو اسے فل کورٹ بنچ کہا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ میں زیادہ سے زیادہ سترہ ججز ہوسکتے ہیں ، اگرچہ آج کل پندرہ جج صاحبان کام کر رہے ہیں۔

سوموٹو نوٹس
آئین کے آرٹیکل 184کی زیلی دفعہ تین کے تحت سپریم کورٹ یہ اختیار بروئے کار لاتی ہے، جب وہ محسوس کرے کہ مفاد عامہ کا کوئی معاملہ ہے یا شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہو رہے ہیں تب وہ کسی معاملے کا ازخود نوٹس لے لیتی ہے، جسے سوموٹو نوٹس کہتے ہیں۔ ورنہ عام حالات میں سپریم کورٹ میں یا ہائی کورٹ کیسز کی اپیلیں آتی ہیں یا پھر کوئی پٹیشن دائر کی جاتی ہے یعنی کوئی فریق عدالت میں آئے تب ہی عدالت اس معاملے کو سنتی ہے۔ اس سوموٹو نوٹس کو سب سے زیادہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے استعمال کیا تھا ، تب سے اس اختیار کو سراہا بھی جاتا ہے اور تنقید بھی کی جاتی ہے۔

جو فریق(عام طور سے حکومتیں) اس سے متاثر ہوتا ہے وہ شور مچاتا ہے کہ سپریم کورٹ ہر معاملے میں سوموٹو لے کر ہمارے لئے مشکل پیدا کردیتی ہے جبکہ ریلیف پانے والے سوموٹو کے گن گاتے ہیں۔ بعض چیف جسٹس صاحبان اس کے حامی نہیں ہوتے، جیسے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے دور میں ایک بار بھی سوموٹو نہیں لیا تھا۔

لارجر بنچ کی تشکیل
چیف جسٹس آف پاکستان نے نو رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا تھا ، خود اس کی قیادت کی جبکہ ان دو ججوں کو اس میں شامل کر دیاجنہوں نے انہیں خط لکھ کر لارجر بنچ بنانے کا مشورہ دیا تھا، جبکہ ان کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس محمدعلی مظہر، جسٹس جمال مندوخیل اور اطہر مندوخیل ۔ سپریم کورٹ کے گیارہ سینئر ترین ججوںمیں سے آٹھ جج صاحبان اس بنچ کا حصہ تھے ۔ تاہم چیف جسٹس کے بعد سینارٹی میں نمبر دوپر آنے والے جسٹس فائز عیسیٰ اور نمبر تین پر آنے والے جسٹس طارق مسعود اس بنچ کا حصہ نہیں تھے۔یاد رہے کہ سوموٹو لینے کے علاوہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر صاحبان نے بھی سپریم کورٹ میں سے رجوع کیا تو ان کا معاملہ بھی اسی کے ساتھ لنک ہوگیا۔

لارجر بنچ پر ہونے والے اعتراضات
حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے دو بنیادی اعتراضات کئے۔ ایک اعتراض یہ تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کوبنچ سے باہر رکھنا چاہیے جبکہ دو سینئر ججز فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو شامل کیا جائے۔ بعض اہم بارکونسلز نے بھی یہ اعتراض کیا، خاص کر دو سینئر ججوں کی شمولیت کا مطالبہ اور جسٹس مظاہرنقوی پر اعتراض۔

دو ججوں پر اعتراض کیا تھا؟
جسٹس اعجاز الاحسن پر ہونے والا اعتراض تو عمومی نوعیت کا ہے،پی ڈی ایم کے مطابق یہ پانامہ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج تھے اور انہوں نے نواز لیگ کے خلاف زیادہ تر فیصلے کئے ہیں وغیرہ وغیرہ ، جبکہ جسٹس مظاہر نقوی پر ہونے والا اعتراض زیادہ سنگین ہے۔ دراصل دو رکنی بنچ جب کیس کی سماعت کر رہا تھا تو ایک آڈیو لیک منظرعام پر آئی جس میں مبینہ طو رپر جسٹس مظاہر نقوی سے چودھری پرویز الٰہی گفتگو کر رہے ہیں ، اس گفتگو میں کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں تھی، مگر دونوں کے پرسنل تعلقات کا پتہ چل رہا تھا۔ مبینہ آڈیو لیک میں پرویز الٰہی جسٹس مظاہر کے گھر آنے کا کہہ رہے ہیں جبکہ جج صاحب انہیں روک رہے ہیں کہ آپ کے آنے کی ضرورت نہیں، آپ کا آدمی یہاں موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ بارکونسلز نے مطالبہ کیا کہ اس آڈیو لیک پر تحقیقات کی جائیں۔ بعدازاں ایک وکیل نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھی بھیج دیا ہے، اگرچہ تاحال جوڈیشل کونسل نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

نو رکنی بنچ کی ہنگامہ خیز کارروائی
نو رکنی بنچ نے جب سماعت شروع کی تو بنچ کے بعض جج صاحبان نے اعتراضات کئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ایک تو سوموٹو نوٹس پر اعتراض کیا کہ یہ آرٹیکل 184ذیلی دفعہ تین کا کیس نہیں بنتا کیونکہ غلام محمد ڈوگر ایک سروس ایشو میں سپریم کورٹ گئے تھے، یہ مفاد عامہ نہیں تھا۔ جمال مندوخیل کا اعتراض جسٹس مظاہر نقوی پر بھی تھا کہ متنازع آڈیو لیک کے بعد انہیں بنچ میں نہیں شامل کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی بعض اعتراضات کئے ، جسٹس اطہر من اللہ کا ایک دلچسپ اعتراض یہ بھی تھا کہ اسمبلی کی تحلیل کا اختیار کس کو ہے، یہ بھی دیکھا جائے ، جسٹس اطہر من اللہ نے فل کورٹ بنچ بنانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔

چیف جسٹس کا تیئس فروری کا تحریری حکم
اب ستائیس فروری کے حکم نامے میں چیف جسٹس کا تحریری حکم اور چار جج صاحبان کے اختلاف نوٹ شامل کئے گئے ہیں، انکی تفصیل دلچسپ ہے، مختصر بیان کرتے ہیں۔

چیف جسٹس عطا بندیال نے سوموٹو نوٹس لینے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ مفاد عامہ اور آئینی حقوق کی پامالی کا جائز معاملہ ہے کیونکہ آئین کے مطابق نوے روز میں الیکشن کرانے ہیں جبکہ پانچ ہفتے ضائع ہوچکے ہیں، مگر اس حوالے سے الیکشن شیڈول بھی نہیں دیا گیا ۔ ہائی کورٹس (لاہور، پشاور)میں یہ کیس ہے ، مگر وہاں بہت تاخیر کی جا رہی۔ دوران سماعت بھی چیف جسٹس نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت میں تین ہفتے کی لمبی پیشی کیوں دی ؟اس دوران صدر نے الیکشن کی خود ڈیٹ دے دی ، یوں معاملہ مزید گمبھیر ہوگیاتھااور عدالت کی مداخلت بنتی تھی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایک دلچسپ جملہ بولا تھا کہ ہمارے پاس سائل کیس لے کر آتے ہیں ، پہلی بار خود آئین نے دستک دی ہے،( یعنی نوے روز میںآئینی تقاضے کو پورا کرنے کا معاملہ اٹھا)۔ چیف جسٹس نے اطہر من اللہ کے اس پوائنٹ کا جواب بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل قانون کے مطابق ہوئی ہے یا نہیں یہ بھی دیکھا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب اس کا وقت نہیں ہے اور ویسے بھی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔ دونوں اسمبلیوں کے سپیکر جو کسٹوڈین ہوتے ہیں اسمبلی کے ، انہوں نے بھی تحلیل کو چیلنج ہی نہیں کیا تو اس پر عدالتی مداخلت نہیں بنتی۔

جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ
جسٹس جمال کے مطابق ڈوگر صاحب کا کیس ایک خالص سروس میٹر تھااس کا الیکشن سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اس لئے دور کنی بنچ کو الیکشن کمیشن کوعدالت میں بلانے سے بھی گریز کرنا چاہیے تھااور سوموٹو نوٹس کا مشورہ دینا بھی نہیں بنتا۔ جسٹس جمال نے مظاہر نقوی کی آڈیو لیک پر بھی کمنٹ کیا اور یہ بھی کہ ان دو ججوں کو اس لئے لارجر بنچ میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا کہ یہ اپنا مائنڈ پہلے ہی سے ظاہر کر چکے ہیں۔ (ویسے یہ بات اصولی طور پر درست نہیں کیونکہ جج صاحبان نے اس خط میں صرف سوموٹو کا کہا، اپنی رائے کہیں ظاہر نہیں کی۔)

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس منصورنے پہلے یہ واضح کیا کہ مجھے اس سوموٹو کیس سے اتفاق نہیں مگر میں اپنی آئینی ذمہ داری سے انکار نہیں کر سکتا، یعنی سوموٹو سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود میں بنچ سے باہر نہیں جاﺅں گا۔ جسٹس منصور نے جمال مندوخیل سے اتفاق کیا کہ یہ خالص سروس کا ایشو تھا، اس پر سوموٹو نہ لیا جاتا، ایک بات یہ بھی کہی کہ آڈیو لیک پر سپریم کورٹ یا جوڈیشل کونسل کی جانب سے ادارہ جاتی ردعمل ابھی تک نہیں دیا گیا۔جسٹس شاہ نے یہ بھی کہا کہ دوسینئر موسٹ ججوں کو لارجر بنچ میں شامل نہیں کیا گیاجو کہ غلط ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
جسٹس آفریدی کا موقف دلچسپ ہے، انہوں نے ایک طرف تو سوموٹو کوجائز قرار دیا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے اورشہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی پامالی کا بھی۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ نامناسب تھاکیونکہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ میں یہ کیسز زیر سماعت ہیں اور ایسے سیاسی ماحول میں سپریم کورٹ کو ازخود مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ان کے مطابق پبلک کو یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں فیصلہ دینے کی خواہش مند ہے۔ جسٹس آفریدی نے یہ پٹیشنز ڈسمس کرنے یعنی خارج کرنے کا بھی لکھ ڈالا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس صاحب نے ابتدا میں یحییٰ آفریدی کے موقف سے اتفاق کیا۔ آگے جا کر انہوں نے اپنے اس پوائنٹ کا دفاع کیا کہ اسمبلی کی تحلیل کا حق کسے ہے، اس بات کو دیکھنا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق یہ بات الیکشن سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ اگر اسمبلی غلط تحلیل ہوئی تو پھر الیکشن کی ڈیٹ دینے کی ضرورت بھی نہیں۔( دلچسپ بات ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ عدالت کو پارلیمنٹ کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، البتہ اس معاملے میں وہ عدالت کے اسمبلیوں کی تحلیل جیسے نہایت اندرونی معاملے میں دخل دینے کے ہم خیال نظر آتے ہیں۔ )اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ سوموٹو نوٹس کے ہر معاملے کو فل کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے کیونکہ یہ غیر معمولی معاملہ ہوتا ہے۔

ممکنہ فیصلہ کیا ہوسکتا ہے؟
عدالتی فیصلے کا تو کل اندازہ ہوگا البتہ جج صاحبان کے افتاد طبع، سابقہ فیصلوں اور نکتہ نگاہ کو دیکھتے ہوئے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اکثریتی فیصلہ نوے دنوں میں الیکشن کرانے کے حوالے سے ہوگا کہ اس سے بچنا بہت مشکل نظر آ رہا۔ بظاہر فیصلہ تین دو سے لگ رہا ہے، مگر یہ کسی خاص نکتے پر چار ایک یا متفقہ بھی ہوسکتا ہے، تاہم اختلافی نوٹ اس وقت یقینی نظر آ رہے ہیں ، چاہے وہ کلی فیصلہ سے ہوں یا اس کے کسی جز سے۔

سپریم کورٹ نے اس بنیادی نکتہ کا فیصلہ کرنا ہے کہ الیکشن ڈیٹ کا اعلان کس نے کرنا ہے اور اگر کوئی یہ ذمہ داری انجام نہیں دے رہا جیسے موجودہ حالات میں گورنر، تو کیا الیکشن کمیشن ازخود یہ کر سکتا ہے ، اسی طرح صدر کی جانب سے دی گئی ڈیٹ کی قانونی حیثیت کا تعین بھی کر دیا جائے گا۔یا تو یہ کہا جائے گاکہ صدر کو اس کا اختیار نہیں ہے تاکہ آئندہ کے لئے یہ بات واضح ہوجائے یا پھر آج کل کے مخصوص حالات میں مجبوراً اسے گوارا کر لیا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ خود کچھ کہنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اپنا آئینی اختیار استعمال کرنے کا کہا اور اسے جرات مندی سے اپنا کام کرنے کے حوالے سے بیک اور سپورٹ کرے۔

میری ذاتی رائے میں معاملہ نوے روز کے اندرصوبائی الیکشن کرانے کی طرف جا رہا ہے۔ باقی کل شام تک صورتحال واضح ہوجائے گی، ممکن ہے ہماری بات غلط ثابت ہو یا عین ممکن ہے رائے درست نکلے۔

Related Posts