پی ایس ایل 7سے ہمیں کیا مثبت، کیا منفی چیزیں حاصل ہوئیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ایس ایل 7سے ہمیں کیا مثبت، کیا منفی چیزیں حاصل ہوئیں؟
پی ایس ایل 7سے ہمیں کیا مثبت، کیا منفی چیزیں حاصل ہوئیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پی ایس ایل 7 کا سب سے اہم اور مثبت سبق یہ ملا کہ ہم اب اپنے ملک میں کرکٹ واپس لے آئے ہیں، الحمدللہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ وہ لاہور، کراچی جیسے شہروں میں دہشت گردی کر کے کرکٹ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ کرے کہ آئندہ بھی یہی صورتحال رہے، آمین۔

قلندرز کو اب پاور ہٹرز بھی ڈھونڈنے چاہیئں

لاہور قلندر کا پی ایس ایل چیمپین بننا کئی اعتبار سے خوش آئند ہے کیونکہ یہ واحد ٹیم تھی جو ابھی تک اس اعزاز سے محروم تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاہور قلندر واحد فرنچائز ہے جس نے کرکٹ پر سب سے زیادہ انویسٹ کیا،نئے ٹیلنٹ کو ڈھونڈا، اسے گروم کیا جس سے پاکستانی کرکٹ کو بہت فائدہ پہنچا۔

پی ایس ایل 7 میں قلندر کے چیمپیئن بننے سے اُن کی ٹیم کا مورال بلند ہوگا اور یہ بھی امید کی جاسکتی ہے اس جیت سے اُن کی ٹیم کے ٹریننگ پروگرام میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

ویسے یہاں یہ بات بھی زیر غور ہے کہ قلندرز کو اب باﺅلرز کے بجائے نوجوان پاور ہٹرز ڈھونڈنے چاہئیں، اس بات کو ممکن بنانے کیلئے عاقب جاوید کے ساتھ کوئی اچھا ہیڈ کوچ بھی رکھنا چاہئے، کسی غیر ملکی کوچ کو نہیں لاسکتے تو عبدالرزاق کو ہی لے آئیں۔

 ٹی ٹوئنٹی میں دو تین اچھے ینگ کپتان تیار ہوگئے

ایک بہت اچھا پہلو جو اس پی ایس ایل میں سامنے آیا کہ ہمارے ہاں وائٹ بال کرکٹ خاص طور پر ٹی ٹوئنٹی میں دو تین اچھے ینگ کپتان تیار ہوئے ہیں۔ پچھلے سال محمد رضوان نے اپنی ٹیم کو پی ایس ایل جتوایا، ڈومیسٹک میں بھی وہ خیبر پختونخوا کی کپتانی کرتے ہیں۔

اس سال شاداب خان اچھے جارحانہ کپتان بن کر ابھرے ہیں، پچھلے سال انہوں نے ڈومیسٹک اور پھر پی ایس ایل میں چند میچز کی کپتانی کی تھی ۔اگر غور کیا جائے تو اس سال کپتانی کے حوالے سے شاہین شاہ آفریدی سب سے اہم دریافت ہیں۔ ایک نوجوان فاسٹ باﺅلرکہ جس کو کرکٹ کھیلتے بمشکل تین چار سال ہوئے ہیں کو اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں ٹیم کا کپتان بنانا کسی جوئے سے کم نہیں تھا ۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ لاہور قلندر نے یہ جوا جیت لیا اور شاہین آفریدی بہت عمدہ کپتان ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بروقت تبدیلیاں کیں، آخری گیند تک لڑے اور ذاتی طو رپر سو فی صد سے زیادہ پرفارمنس دی جس نے انہیں ممتاز بنادیا۔

اچھی بات یہ ہے کہ قومی ٹیم کے لئے وائٹ بال کرکٹ میں دو تین آپشنز آگئے ہیں۔ مگر منفی بات یہ ہے کہ جب ٹیم میں دو تین پوٹینشل کپتان کھیل رہے ہوں تو عام طور سے سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ مصباح الحق اتنا طویل عرصہ اس لئے ٹیسٹ کپتان رہے کہ تب کوئی اچھا آپشن موجود نہیں تھا۔ ٹیم کے پاس یونس خان تھے، مگر بورڈ انہیں آزما چکا تھا اور دوبارہ چانس دینے کا امکان نہیں تھا۔ ۔

ٹیم کو دو اچھے فاسٹ بالرز مل گئے

پی ایس ایل 7 کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ دو اچھے فاسٹ بالرز سامنے آئے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں زمان خان اور سلمان ارشاد کی صورت میں دو اچھے فاسٹ باﺅلرز پاکستان ٹیم کو ملے ہیں، دونوں میں پوٹینشل ہے کہ وہ وائٹ بال کرکٹ میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرسکیں۔

دھانی اور نسیم شاہ کی کارکردگی بھی اچھی رہی، مگر یہ دونوں پہلے ہی قومی ٹیم سے کھیل چکے ہیں۔ سپن اٹیک میں لیفٹ آرم آصف آفریدی نے متاثر کیا، وہ رنز روکنے والے اچھے باﺅلر ہیں اور نئی گیند سے پاور پلے میں بھی مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہاں پر زیر غور ہے کہ آصف آفریدی ہمارے قومی آل راﺅنڈر عماد وسیم سے بہتر پرفارم کرتے ہیں۔

خوشدل شاہ ورلڈ کپ نہ کھیل سکے، مگر اس کے بعدا نہیں مواقع ملے ہیں، وہ ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی دونوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس بار خوشدل شاہ ایک اچھے پارٹ ٹائم سپنر کے طور پر ابھرے، یہ اچھی علامت ہے۔ خوشدل شاہ ٹیم میں محمد حفیظ کی کمی پوری کرکتے ہیں کیونکہ محمد حفیظ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کو ایک اچھے بیٹنگ آل راﺅنڈر کی ضرورت تھی۔

ٹی ٹوئنٹی میں لگتا ہے کہ بابر اعظم اچھے شاٹس نہیں کھیل سکتے؟

ایک بہت ہی منفی پیغام یہ ملا کہ ہمارے بیشتر کھلاڑی اپنے کھیل کو بہتر کرنے میں ناکام رہے، ان کی ناکامیاں پی ایس ایل میں صاف نظر آئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بابر اعظم پاکستان کے بہترین بلے باز ہیں، مگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ایسا لگا کہ وہ بڑے شاٹس نہیں کھیل سکتے ۔ خاص کر کہ جب ٹیم کو دس گیارہ یا بارہ رنز فی اوورز کی اوسط چاہئے ہوں تو بابر اعظم بے بس نظر آتے ہیں۔

پی ایس ایل میں کئی بار ایسا ہوا اور جب ضرورت تھی، وہ بلا اٹھانے میں ناکام رہے ۔بابر کو اپنی اس خامی پر کام کرنا چاہیے۔ یہی رضوان کے ساتھ بھی مسئلہ تھا، مگر رضوان نے ایک دو بڑے شاٹس میں مہارت حاصل کر لی اور وہ کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہے ہیں، اگرچہ رضوان کا سٹرائیک ریٹ بھی متاثرکن نہیں ہے۔

کچھ کھلاڑیوں نے مایوس کیا

اس ٹورنامنٹ کے دوران حیدرعلی سے بہت لوگوں کو امیدیں تھیں، مگر حیدرکی کارکردگی میں تسلسل نہیں، وہ اکثر میچز میں وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔

آصف علی پاکستان کے خوش قسمت ترین کھلاڑی ہیں جنہیں بے شمار مواقع ملے۔ ان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ گزشتہ ورلڈ کپ میں ہیرو بن گئے، افغانستان کے خلاف ان کے چار چھکوں کو کون بھلا سکے گا؟

مگرجو بات تشویش کی ہے وہ یہ کہ آصف علی ہر گیند پر چھکا لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں ہے۔ پی ایس ایل 7 میں آصف کی کارگردگی بہت مایوس کن رہی ہے۔

عثمان قادر اچھے لیگ سپنر ہیں، مگر ٹی ٹوئنٹی میں بہت مہنگے پڑتے ہیں، اس ٹورنامنٹ میں بھی عثمان بہت مہنگے رہے اور عثمان ابھی تک اپنی کارکردگی میں کوئی بہتری بھی نہیں لاسکے۔ شاداب خان نے بہت اچھی باﺅلنگ کی، مگر شاداب کے اب انجریز کے مسائل آ رہے ہیں، کسی بھی وقت وہ ان فٹ ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں متبادل لیگ سپنرکے طور پر عثمان قادر ابھی تک مایوس کن جا رہے ہیں۔

آل راﺅنڈرز ڈھونڈنے ہوں گے

آل راﺅنڈرز کے طور پر ہمار ے پاس زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ عامر یامین کی کارکردگی بھی اوسط سے کم درجے کی ہے، فہیم اشرف کبھی پرفارم کر جاتے ہیں اور کبھی بیڑا غرق کردیتے ہیں۔ ہمیں اچھے آل راﺅنڈرز ڈھونڈنے ہوں گے اور موجودہ پی ایس ایل میں اس حوالے سے کوئی مدد نہیں مل سکی۔

صرف اوپننگ بیٹسمین ہی سامنے آئے؟

ہمارے بعض قومی کھلاڑیوں نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی، جیسے فخرزمان وہ پی ایس ایل کی بہترین ٹیم میں بھی شامل ہوئے۔ شان مسعود نے بہت اچھا پرفارم کیا اور وہ تمام فارمیٹس میں واپس آسکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو چار پانچ اچھے بیٹسمین ہیں، وہ سب اوپننگ سلاٹ کے لئے فٹ ہیں۔ رضوان، بابر، شان مسعود، فخر زمان اورعبداللہ شفیق کو بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کتنوں کو اوپنر بنا سکتے ہیں ؟

حارث کی صورت میں البتہ ایک اچھا وکٹ کیپر اور جارحانہ بلے باز کی آپشن آئی ہے، حارث ٹورنامنٹ کا سب سے بہترین نیا بیٹسمین رہا۔

مڈل آرڈر میں کوئی کھلاڑی نہیں ہے؟

ہمارے پاس مڈل آرڈر میں شعیب ملک جیسا کوئی کھلاڑی نہیں، حتیٰ کہ ایک اور محمد حفیظ بھی نہیں۔ پاور ہٹرز کی خاصی کمی ہے، ایسا آل راؤنڈر جو دس پندرہ گیندوں پر تیس پینتیس بنا سکتا ہو۔ خوشدل شاہ ایک آپشن ہیں۔ افتخار احمد اور آصف علی مایوس کن ہیں۔ اعظم میں پوٹینشل ہے ، لیکن اسے دس بارہ کلو وزن گھٹانا ہوگا،ابھی تو اس سے بھاگ کر ڈبل رنز تک نہیں لیے جاتے۔

پی ایس ایل فرنچائز نے مڈل آرڈر، لوئر مڈل آرڈر میں غیر ملکی پاور ہٹرز سے کام چلایا ہے، انہیں نکال دیں تو یقین ہے کہ ٹیموں کی کارکردگی دھڑام سے نیچے گر جائے گی۔ سلطان میں رائلی روسواور ٹم مے، قلندر میں بروک اور ویزا وغیرہ۔ اسلام آباد نے یہ کمی جارحانہ اوپنرز سٹرلنگ، الیکس ہیلز، منرو سے پوری کی۔ قومی ٹیم کے لئے ہمیں مقامی پاور ہٹرز درکار ہیں، وہ کہاں سے آئیں گے؟

ڈیتھ اوورز کے مسائل

ڈیتھ اوورز کے مسائل بھی ابھی تاحال چل رہے ہیں۔ شاہین شاہ جب تک اچھی سلو بالز کی مہارت پیدا نہیں کرتے، تب تک وہ ڈیتھ اوورز میں غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھا سکتے، بعض میچز میں وہ اچھے رہے اور بعض میں کمزور۔ یہی حال حارث رﺅف کا بھی ہے۔ دھانی بھی آخری ایک دو میچز کے علاوہ آف کلر رہے ۔ وسیم جونیئر کا پورا ٹورنامنٹ خوفناک رہا۔ یہ یاد رہے کہ لاہور کے آخری میچز میں ایسی خطرناک ریورس سوئنگ ہوئی کہ جس کا فائدہ مقامی باﺅلرز نے اٹھایا ۔اب دنیا بھر میں کہیں پر بھی ایسی پچز نہیں بنتیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ فلیٹ بیٹنگ پچز پر کہاں سے ریورس سوئنگ ہوگی ؟

یہ بھی پڑھیں:

پاکستانی نژاد ویژول آرٹسٹ میشا جاپان والا کون ہیں؟

پی سی بی اور فرنچائز کو ٹیلنٹ کو گروم کرنی کی ضرورت ہے

پی سی بی کو غیر رسمی طور پر فرنچائز سے بات کرنی چاہیے کہ جن شعبوں میں قومی ٹیم کی کمزوری ہے، اس کے لئے فرنچائز مقامی ٹیلنٹ گروم کریں اور مسابقت والی کرکٹ میں انہیں مواقع دیں۔ کسی ایک فرنچائز میں ایک ہی طرح کے دو تین ایکسٹرا کھلاڑی جمع ہوگئے تو انہیں دانشمندی سے دوسری جگہوں پر پھیلایا جائے۔ اعظم کوئٹہ سے نکلے تو اس بار اپنا رنگ جما سکے ہیں۔ یہی حکمت عملی دیگر کھلاڑیوں کے لئے بھی اپنانی چاہیے ۔

جو چند ایک اچھے نئے کھلاڑی پی ایس ایل سے ابھرے ہیں، انہیں قومی کیمپ میں بلا کر مزید گروم کرنا چاہیے۔ سلمان ارشاد، زمان خان، پشاور کے عمر، قاسم اکرم،آصف آفریدی، حارث وغیرہ ممکن ہو تو انہیں اے ٹیم میں شامل کر کے کچھ انٹرنیشنل تجربہ دلایا جائے۔

رمیز راجہ اپنے تعلقات استعمال کر کے اُن میں سے بعض کو انگلش کاﺅنٹی کرکٹ یا دیگر ٹی ٹوئنٹی لیگز میں مواقع دلا سکتے ہیں۔ اگر ان نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع مل جائیں تو یہ تجربہ حاصل کرکے قومی ٹیم کا اثاثہ بن سکتے ہیں۔

Related Posts