امریکی نظام انصاف اور انٹیلی جنس ادارے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پہلا حصہ:

ساکنانِ لنڈا بازار کی جانب سے ہمیں عام طور پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ امریکہ میں قانون کا بول بالا ہے۔ اس کی پراسکیوشن اور عدالت انصاف کیلئے وقف ہے۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے۔

یہ 30 اپریل 1975ء کا دن تھا جب سائیگون میں واقع امریکی سفارت خانے کی چھت سے آخری امریکی اور سہولت کار نے ویتنام کی زمین چھوڑی۔ لے جائے گئے سہولت کاروں کو امریکا کی پانچ مختلف ریاستوں میں تقریباً یکجا بسایا گیا تھا تاکہ ان کا کمیونٹی کا احساس باقی رہے۔

ان میں سے جنہیں ٹیکساس میں بسایا گیا ان کی کمیونٹی کو جلد ”لٹل سائیگون“ کا غیررسمی نام بھی مل گیا تھا۔ بظاہر سب کچھ بہت منظم طور پر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور زندگی پرسکون تھی، مگر گڑبڑ کا آغاز اس وقت ہوا جب 21 جولائی 1981ء کو سان فرانسسکو میں ایک ویتنامی زھونگ چونگ لام کا قتل ہوگیا۔ اسے اس کے دفتر کے سامنے فٹ پاتھ پر تین گولیاں ماری گئی تھیں۔ پھر جلد ہی ایک اور قتل 24 اگست 1982ء کو ہوگیا۔

اس بار واردات ہیوسٹن، ٹیکساس میں ہوئی تھی اور قتل ہونے والا ڈیم فانگ تھا جسے اس کے گھر کے دروازے میں گولی ماری گئی۔ ان دونوں واقعات میں کئی مماثلتیں تھیں۔ پہلی یہ کہ دونوں نے امریکا آکر ویتنامی زبان کے جرائد کے ڈیکلریشن حاصل کرلیے تھے اور بطور صحافی ان جرائد کی اشاعت کر رہے تھے۔

دوسری مماثلت یہ رہی کہ دونوں واقعات میں قاتلوں نے جائے وقوع پر خول نہیں چھوڑے تھے، جس سے ظاہر تھا کہ وہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور فرانزک ایویڈنس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ تیسری مماثلت آگے چل کر یہ سامنے آئی کہ دونوں کیسز میں پولیس اور پراسیکیوشن نے واضح طور پر ایسی حرکتیں کیں جن سے قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنے کی حکمت عملی روبہ عمل ہونے کا پتا چلتا تھا۔

مثلاً زھونگ چونگ لام کے قتل کے تین گواہ تھے، مگر پولیس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ تو طلب کیا اور نہ ہی ان کے بیان ریکارڈ کیے۔ اسی طرح زھونگ چونگ لام کی بہن نینسی زھونگ نے پولیس کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اس کی کنپٹی پر گن رکھ کر دھمکی دی گئی تھی کہ بھائی سے کہو کہ فیملی سمیت امریکا سے نکل جائے ورنہ مارا جائے گا۔

لیکن پولیس نے اس بیان کو کوئی اہمیت نہ دی اور کیس عدالت میں یہ پیش کیا کہ زھونگ کی اپنے ایک دوست سے ذاتی رنجش تھی جس نے اسے قتل کردیا۔ زھونگ کے اس دوست کو باقاعدہ چارج بھی کیا گیا، مگر کیس اتنا مضحکہ خیز تھا کہ پہلی ہی سماعت پر جج نے اٹھا کر کورٹ سے باہر پھینک دیا۔ یوں یہ کیس سرد خانے میں چلا گیا۔ حیران کن بات یہ کہ نینسی زھونگ کہتی ہے کہ قتل کے بعد دو ماہ تک روز اسے دھمکی آمیز فون کالز صبح شام آتی رہیں مگر پولیس کوئی نوٹس ہی نہ لیتی تھی۔

یہ چونکہ قتل کے واقعات تھے اور دونوں میں مماثلتیں بھی تھیں سو جلد ایف بی آئی نے اس کی تحقیقات شروع کردیں۔ یوں شروع ہوئے وہ ہوش ربا انکشافات جن کا دائرہ ٹیکساس سے تھائی لینڈ کے جنگلات اور وہاں سے ویتنام کے ساحلوں تک پھیلا ہوا تھا اور اس دائرے میں پینٹاگون اور سی آئی اے دونوں کے فٹ پرنٹ کیا فنگر پرنٹ بھی عیاں تھے۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جنہیں ویتنام سے لے جایا گیا تھا، ان کی اکثریت کا تعلق ویتنام کی مسلح افواج سے تھا اور ان میں ہر رینک کے افسران شامل تھے۔ ایف بی آئی نے جب قتل کے مذکورہ دو واقعات کی تفتیش شروع کی تو جلد انکشاف ہوا کہ امریکا میں ویتنامیوں کی تین زیرزمین تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں۔ مرکزی تنظیم کا نام “دی فرنٹ” تھا جبکہ اس کی ایک ذیلی تنظیم K9 تھی۔

کے نائن کی حیثیت ڈیتھ اسکواڈ کی تھی جس کے ارکان نامعلوم تھے۔ ہیوسٹن ٹیکساس میں قتل ہونے والے ڈیم فانگ کے کیس کے حوالے سے ویتنامیوں میں کے 9 کا نام گردش کر رہا تھا، مگر جس بھی ویتنامی سے اس حوالے سے سوال کیا جاتا وہ ہونٹ سی لیتا۔

اس کے برخلاف سان فرانسسکو میں قتل ہونے والے زھونگ چونگ لام کے قتل کی ذمے داری VOECRN (دی ویتنامیز آرگنائزیشن ٹو ایکسٹرمنیٹ کمیونسٹ اینڈ ریسٹور دی نیشن) نامی تنظیم نے قبول کر رکھی تھی، مگر قتل کی یہ ذمے داری اس طرح قبول نہ کی گئی تھی جس طرح عام طور پر دنیا بھر میں دہشت گرد تنظیمیں قبول کرتی ہیں کہ میڈیا دفاتر کو فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع سے رابطہ کرکے ذمے داری قبول کرلی جائے۔ زھونگ کے کیس میں یہ ذمے داری صرف فیملی کو فون کرکے اور ویتنامی کمیونٹی کو سینہ بسینہ آگاہ کرکے قبول کی گئی تھی۔ یعنی بات صرف ویتنامی کمیونٹی تک محدود رکھی گئی تھی، عام امریکی اس سے لاعلم تھے۔

تاثر یہی تھا کہ تین مختلف آرگنائزیشنز متحرک ہیں، مگر جلد ایف بی آئی کو اپنی تحقیقات میں پتا چلا کہ VOECRN صرف ایک نام ہے۔ جو فرنٹ اور کے 9 کی وارداتوں کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے تاکہ کے 9 نامی ڈیتھ اسکواڈ کی جانب کوئی متوجہ نہ ہوسکے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں ایف بی آئی کو جلد پتا چلا کہ معاملہ صرف زھونگ چونگ لام اور ڈیم فانگ کے قتل کے دو واقعات تک محدود نہیں، بلکہ دیگر ریاستوں میں بسائی گئی ویتنامی کمیونٹی میں بھی اسی طرح کی وارداتیں ہوچکی ہیں۔

یوں مجموعی طور پر قتل کی سات اور اقدام قتل کی درجنوں وارداتوں کا سراغ ملا۔ قتل ہونے والے ساتوں افراد ویتنامی صحافی تھے، اسی طرح قاتلانہ حملوں کا نشانہ بننے والوں میں بھی اکثریت صحافیوں کی تھی۔ پھر اہم بات یہ کہ قاتل ہر جگہ خود ویتنامی تھے۔ معلوم نہیں تھے مگر دھمکیوں سے ثابت ہوچکا تھا کہ وہ جو بھی ہیں، ہیں ویتنامی۔ سو ایف بی آئی کے لیے یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا کہ آخر بے وطن ہوکر امریکہ پہنچنے والے ویتنامی اپنے صحافیوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟

جب تفتیش کا رخ اس پہلو کی جانب موڑا گیا تو انکشاف ہوا کہ ویتنام سے آنے والوں میں بہت سے کمیونسٹ بھی امریکا کو ٹوپی پہنا کر یہاں پہنچنے میں کام یاب ہوگئے ہیں اور جرائد و اخبارات کے ڈیکلریشن لے کر ویتنامی کمیونٹی سے مخاطب ہیں اور ان کی ذہن سازی اپنے خطوط پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پتا چلا کہ اقدام قتل کی واردات کا نشانہ بننے والا ہر شخص صحافی تو نہ تھا مگر مقتولوں سمیت تمام کے تمام کمیونسٹ ضرور تھے۔

جو قارئین دنیا بھر میں نظریاتی تحریکوں کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کمیونسٹ تحریک کا ہر ملک میں سب سے اہم ذریعہ جرائد اور تحاریر ہی رہی ہیں۔ سو ویتنامی کمیونسٹ بھی اپنے عالم گیر چلن پر تھے اور وہ بھی صحافت ہی کے ذریعے اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہے تھے۔ ایف بی آئی کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکا میں بسے ویتنامیوں کی زیرزمین تنظیم نے کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے لیے تین شرائط رکھی ہوئی ہیں: پہلی یہ کہ وہ کمیونسٹ ہو، دوسری یہ کہ وہ فرنٹ کے وجود کے لیے خطرہ ہو اور تیسری یہ کہ وہ فرنٹ کے کسی ممبر کی ذات کے لیے خطرہ ہو۔ ان تینوں میں سے ایک بھی شرط پائی جانے کا مطلب موت کا حق دار ہونا تھا۔

اس پورے معاملے میں اورینج کاؤنٹی کیلی فورنیا میں اقدام قتل کے جرم میں سزا پانے والے واحد ویتنامی ٹرین وھین بیٹو سے امریکا کے مشہور انویسٹی گیٹو جرنلسٹ اے سی تھامسن نے آن کیمرا انٹرویو کے دوران پوچھا کہ اس نے اپنے ٹارگٹ شخص پر حملہ کیوں اور کیسے کیا تھا؟ تو اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا:

“میں اسے اورینج کاؤنٹی کی مارکیٹ کے پارکنگ لاٹ میں گولی مارنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ دبوچ لیا، لیکن میں نے ہاتھ چھڑایا اور اس کے سر میں گولی داغ دی۔ وہ کسی درخت کی طرح دھڑام سے گرا۔ میں سمجھا وہ مرگیا ہے لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ بچ گیا تھا۔ میں اسے اس لیے قتل کر رہا تھا کہ وہ کمیونسٹ تھا اور اس نے لاس اینجلس ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویتنام کی کمیونسٹ حکومت سے ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ کمیونسٹ بیمار لوگ ہوتے ہیں۔ بیمار لوگوں کو مرنا ہی ہوتا ہے۔ لوگ مجھے ممکنہ قاتل سمجھتے ہیں، مگر یہ قتل کی کوشش نہیں تھی بلکہ جنگی اقدام تھا۔ ہماری جنگ ابھی ختم نہ ہوئی تھی۔”

اسی طرح تھامسن نے فرنٹ کے سابق ممبر نوین ڈینگ خوا سے پوچھا:

“اگر 80 کی دہائی میں کوئی شخص تمہارے سامنے کمیونسٹ نظریات کا اظہار کرتا تو تمہارا ردعمل کیا ہوتا؟”

ڈینگ خوا نے جواب دیا:

“میں اسے خنجر گھونپ دیتا، یا گلا کاٹ دیتا، کچھ بھی کرتا مگر اسے قتل کر دیتا۔”

جب اس سے پوچھا گیا:

“کیا تمہارا تعلق کے 9 سے تھا؟”

تو اس نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا:

“نہیں!”

اس پورے ایشو میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایف بی آئی کی ساری تحقیقات کسی پراسیکیوشن کے بغیر سردخانے میں چلی گئیں، چنانچہ ان واقعات کے لگ بھگ تیس سال بعد اے سی تھامسن نے اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنا کچھ امریکی سرزمین پر ہوا لیکن بیٹو کے سوا کسی کو سزا نہ ہوئی۔ (جاری ہے)

Related Posts