امریکی نظام انصاف اور انٹیلی جنس ادارے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دوسرا اور آخری حصہ:

دی فرنٹ اور کے9 کا کوئی بھی اہل کار پکڑا گیا اور نہ ہی اس تنظیم کے خلاف کوئی قانونی ایکشن ہوا۔ اپنی تحقیقات کے دوران تھامسن کو پتا چلا کہ ایک کیس فیڈرل کورٹ میں گیا ضرور تھا، مگر اس کیس میں فرنٹ نے جج کے سامنے یہ موقف اختیار کرلیا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں انہیں ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کی سرپرستی حاصل ہے۔

اس کے بعد یہ کیس بند ہوگیا۔ اے سی تھامسن کہتے ہیں کہ جب میں متعلقہ عدالت گیا اور آرکائیو سے اس پرانے کیس کی فائلیں حاصل کرنی چاہیں تو پتا چلا کہ کیس کی تمام فائلیں آرکائیو سے غائب ہیں۔

اے سی تھامسن کو یہ بھی پتا چلا کہ فرنٹ امریکا میں باقاعدہ بھاری چندہ اکٹھا کرتا تھا اور مقصد اس کا یہ بتایا جاتا تھا کہ ہم نے ویتنام میں گوریلا جنگ لڑنی ہے۔ اس ضمن میں تھامسن نے فرنٹ کے مالیاتی امور کی تفتیش کرنے والے اس دور کے ریٹائرڈ پولیس سارجنٹ ڈگ زیمسکی سے انٹرویو میں پوچھا:

“کیا فرنٹ کی چندہ مہم کی امریکی قانون میں گنجائش تھی؟”

تو زیمسکی نے دوٹوک انکار کردیا۔ تھامسن نے پوچھا:

“تو پھر یہ سب کیسے ہوتا رہا؟”

زیمسکی نے جواب دیا:

“بس یہ ہوتا رہا، اور بے روک ٹوک چلتا رہا۔”

تھامسن نے پوچھا:

“کیا آپ کے خیال میں اسے امریکی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی؟”

زیمسکی نے اعتماد سے بھرپور لہجے میں جواب دیا:

“جی بالکل! وہ ایک کورٹ کیس میں کہہ چکے تھے کہ وہ پنٹاگون اور سی آئی اے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف کئی کیسز تیار کیے گئے، مگر ہر کیس اٹارنی آفس پہنچ کر سرد خانے کی نذر ہوجاتا۔”

زیمسکی نے پرسنل ریکارڈ سے ایک مقتول کی بلر تصویر دکھاتے ہوئے بتایا:

“یہ لوگ اتنے سفاک تھے کہ اس مقتول کے سینے پر خنجر سے لکھ دیا تھا: میں ایک غدار تھا، اور غدار کی موت مرا۔”

چناںچہ تھامسن نے اس بات کی تحقیق شروع کردی کہ آخر اس منظم اور سفاک خفیہ تنظیم کا سربراہ کون تھا؟ پتا چلا کہ ویتنامی نیوی کا سابق وائس ایڈمرل ہوانگ کو منہ فرنٹ کا سربراہ تھا۔ فرنٹ میں اکثریت سابق ویتنامی نیول افسران کی ہی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ ویتنام کی کوسٹ لائن 3260 کلومیٹر پر مشتمل ہونے کے سبب مسلح افواج میں نیوی ہی اس کا سب سے نمایاں عسکری محکمہ ہے۔ جب ہوانگ کو منہ کی شخصیت اور امریکا میں اس کی سرگرمیوں کو کھنگالا گیا تو انکشاف ہوا کہ یہ امریکا ویتنام جنگ کے ویٹرن جیمز کیلی کی سفارش پر پہنچا تھا۔

یہ وہی جیمز کیلی ہے جو رونالڈ ریگن اور بش سینئر کے دورحکومت میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا سینئر عہدے دار رہ چکا تھا۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ہوانگ کو منہ نے امریکا میں داخل ہونے کے لیے جو فارم بھرا تھا اس پر اس کام اصل نام ہی درج ہے، مگر شہریت والے خانے میں اس نے خود کو “بے وطن” درج کرا رکھا تھا۔ آگے چل کر جب اس کی امریکی شہریت کا مرحلہ آیا تو سرکاری دستاویزات سے ثابت ہے کہ شہریت کے لیے اس نے جو کاغذات جمع کرائے تھے اس پر اس نے اپنا نام “ویلیم ناکامورا” درج کر رکھا تھا جو ایک جاپانی نام ہے۔

ان دستاویزات میں اس نے اپنے گھر کا پتا واشنگٹن کا درج کر رکھا ہے مگر جگر تھام کر سنیے کہ یہ پتا پنٹاگون کے ایک تاریخی کردار رچرڈ آرمٹیج کے گھر کا ہے۔ یہ وہی رچرڈ آرمٹیج ہے جس کی جانب مبینہ طور پر یہ دھمکی منسوب ہے کہ اس نے نائن الیون کے فوراً بعد اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کردہ دستاویزات سے اے سی تھامسن کے ہاتھ پنٹاگون کا وہ خط بھی لگا ہے جو ہوانگ کو منہ کی شہریت کے لیے جمع کرائی گئی فائل کا حصہ ہے اور جس میں پنٹاگون نے سفارش کر رکھی ہے کہ ہوانگ کو منہ کو امریکی شہریت جلدازجلد فراہم کی جائے۔

اے سی تھامسن کو اپنی تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ہیوسٹن ٹیکساس میں قتل ہونے والے ویتنامی صحافی ڈیم فانگ نے قتل سے کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ کا دورہ کیا تھا اور تھائی جنگلات میں فرنٹ کے خفیہ ٹریننگ سینٹر کی لوکیشن معلوم کرلی تھی، جس کا ذکر اس نے اپنے جریدے میں کر رکھا تھا اور یہی اس کے قتل کا سبب بنا تھا۔ چناںچہ اے سی تھامسن مزید کھوج کے لیے نہ صرف تھائی لینڈ گیا بلکہ اس دور کے تھائی آرمی چیف Chavalit Yongchaiyudh کا اس حوالے سے انٹرویو بھی کیا۔ یہ صاحب بعد میں 90 کی دہائی میں تھائی لینڈ کے ڈپٹی پرائم منسٹر، منسٹر فار ڈیفنس اور وزیراعظم بھی رہے ہیں۔

جب تھامسن نے Chavalit Yongchaiyudh سے پوچھا کہ کیا تھائی لینڈ کے جنگلات میں فرنٹ کا کوئی ٹرینگ سینٹر تھا؟ تو انہوں نے صاف اقرار کیا کہ بالکل تھا، اور یہ لوگ لاؤس کے عسکریت پسندوں کے تعاون سے ویتنام میں گوریلا جنگ کی تیاری کر رہے تھے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا ان کی تعداد 200 کے قریب تھی؟ تو سابق تھائی آرمی چیف نے کہا، اس سے بہت زیادہ تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس میں امریکی حکومت کی بھی کوئی مدد تھی؟ تو انہوں نے کہا، بہت بڑی مدد تھی۔ رچرڈ آرمیٹج بہت سرگرم تھے۔

اور یہ کہ اس کیمپ کو قائم کرنے کے لیے مجھے تھائی وزیراعظم نے ہی حکم دیا تھا۔ اے سی تھامسن نے لاؤس کا دورہ کرکے پرانے وقتوں کے لاؤ گوریلوں کا بھی انٹرویو کر رکھا ہے، جنہوں نے انکشاف کیا کہ تھائی لینڈ کے جنگل سے فرنٹ کے بہت سے گوریلوں نے فرار کی بھی کوشش کی تھی جنہیں ہوانگ کو منہ کے حکم پر قتل کردیا گیا تھا، جن میں سے دس افراد کی قبریں یہیں لاؤس کے جنگلات میں ہی ہیں۔

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ تھائی لینڈ اور ویتنام کے بیچ لاؤس حائل ہے۔ سو سیکورٹی کے پہلو سے یہ ٹریننگ سینٹر تھائی لینڈ میں بنایا گیا تھا، کیوںکہ لاؤس میں شورش کے سبب وہاں ویتنامی افواج کو رسائی حاصل تھی۔

اب آخر میں آجاتا ہے یہ سوال کہ ہوانگ کو منہ اور اس کی گوریلا فورس کا کیا بنا؟ تو اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ 1987ء کے موسم گرما میں ہوانگ کو منہ اپنے 200 گوریلوں کے ہم راہ تھائی لینڈ سے لاؤس کے جنگلات میں داخل ہوا اور دس دن تک سفر کرتا ویتنام کی جانب بڑھتا رہا۔ ویتنام کی سرحد بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہی رہ گئی تھی کہ ایمبوش لگائے بیٹھی ویتنامی فورسز نے انہیں لاؤس کی حدود میں ہی بھون ڈالا۔ یوں 20 اگست 1987ء کو ہوانگ کو منہ اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا۔

ہوانگ کے بعد بھی یہ تنظیم بہت کم زور حالت میں عسکری تنظیم کے طور پر موجود رہی اور 90 کی دہائی کے آخر تک چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کرتی رہی۔ لیکن جب امریکا کے ویتنام کے ساتھ سفارتی تعلقات پہلے قائم اور پھر بہتر ہونے شروع ہوئے تو فرنٹ نے 19 ستمبر 2004 کو اپنا نام بدل کرViet Tân رکھ لیا جوVietnam Reform Revolutionary Party کا ویتنامی مخفف ہے۔ اور اعلان کیا کہ اب وہ ایک عدم تشدد پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے گی اور اس کا مقصد پرامن سیاسی سرگرمی کے ذریعے ویتنام کو “لبرل ڈیموکریسی” بنانا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور امریکا دونوں نے اس کے حق میں بیانات جاری کرتے ہوئے اسے ایک قانونی سیاسی تنظیم قرار دیا، مگر ویتنام میں یہ اب بھی ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر بین ہے۔

ویتنام کا کہنا ہے کہ ہم اسے اب بھی دہشت گرد تنظیم اس لیے مانتے ہیں کہ امریکا میں اب بھی ہر سال اس کی سالانہ پریڈ ہوتی ہے جس میں اس کے سابق فوجی اہل کار باقاعدہ فوجی وردی میں حصہ لیتے ہیں، پریڈ میں فوجی جیپوں کے ذریعے مارچ ہوتا ہے اور ان فوجیوں کے پاس پریڈ میں مشین گنیں بھی ہوتی ہیں، جبکہ دوسری بات یہ کہ اس کے امریکا سے آنے والے کئی اراکین ویتنام میں مسلح وارداتوں میں پکڑے گئے ہیں۔ جب تک وہ پکڑے نہ جائیں، ان کے اہل کار ہوتے ہیں لیکن جوں ہی کوئی گرفتار ہوجائے تو یہ فوراً اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکمت عملی بدل کر ویتنام میں قدم جمانے کے لیے پُرامن سیاسی جماعت کا صرف ڈھونگ رچا رہے ہیں۔

ویتنامی موقف کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ پر امن سیاسی جماعت بننے کے بعد اس کے موجودہ چیئرمین کی سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ مشترکہ ملاقات کی تصاویر موجود ہیں۔ یہ سہولت کسی اور ملک کی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تنظیم اب بھی ہر سال امریکا میں باقاعدہ تقریب کی صورت ہوانگ کو منہ کی برسی مناتی ہے۔ 20 اگست 2020 کی تقریب کی انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ اے سی تھامسن نے ویڈیو ریکارڈنگ بھی کر رکھی ہے، جس میں فوجی وردی میں ملبوس سیکڑوں سابق ویتنامی فوجی افسران دیکھے جا سکتے ہیں۔

امریکی نظام انصاف اور انٹیلی جنس اداروں کی یہ پوری تفصیل آپ نے “عسکریت” کے گرد گھومتی دیکھی۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ صرف اسی پہلو سے ہوتا ہو۔ آپ خالص داخلی سیاست میں بھی یہ سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں۔ مثلا آپ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قائم ہونے والے مقدمات ہی دیکھ لیجئے۔ یہ سب کے سب سیاسی مقدمات ہیں اور ان کے پیچھے امریکی اسٹیبلیشمنٹ سرگرم ہے۔ سو یہ کہنا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور عدالتوں کا گٹھ جوڑ صرف ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کسی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ (ختم شد)

Related Posts