امریکی سازش کا بیانیہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے قومی سلامتی کمیٹی کو جائزے اور نتائج کی بنیاد پر بتایا ہے کہ انہیں سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے کمیونی کیشن کا جائزہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے موصول ہونے والے جائزوں اور پیش کردہ نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سابق حکومت کیخلاف کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف،وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ،وزیر مملکت برائے امورخارجہ حنا ربانی کھر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی، چیف آف ائیر اسٹاف ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید اور اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر غور کیا گیا۔وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق سابق سفیر اسد مجید خان نے کمیٹی کو اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق،مندرجات اور پس منظر کے بارے میں بریفنگ دی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے مواد اور کمیونی کیشن کی جانچ کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی۔

جمعہ کو ہونیوالے اجلاس میں امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید بھی شریک تھے جنہوں نے تمام صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دی، اس سےپہلے قومی سلامتی کمیٹی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں امریکا کو ڈی مارش جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا اورقومی سلامتی کمیٹی کے جمعہ کے روزہونیوالے اجلاس میں گزشتہ اجلاس کے فیصلے کا اعادہ کیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کاکہنا ہے کہ سفیراسدمجید خان نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو سائفر ٹیلیگرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں بریف کیا اور اپنے پیشہ وارانہ جائزے سے آگاہ کیاجبکہ اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خارجہ امورحناربانی کھر کا کہنا ہے کہ سائفر کو سیاسی مقاصدکیلئے سامنے لایاگیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل مبینہ امریکی سازش کا انکشاف کیا تھا اور تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش جبکہ اپوزیشن رہنماؤں کو اس سازش کا حصہ قرار دیا تھاگوکہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے ہرحربہ استعمال کیا اور اتحادیوں کو روکے رکھنے کیلئے ہر قسم کی پیشکش کی لیکن تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان حکومت کے خاتمے کوسازش سے جوڑتے رہے ۔

وزیرمملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر اس بات کا اعتراف کرچکی ہیں کہ پاکستانی سفیر کے مراسلہ میں انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ گزشتہ حکومت نے ڈیمارش کا فیصلہ کیاتاہم اگر سازش ہوتی تو حکومت سخت اقدام اٹھاتی لیکن اس مراسلے کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرکے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔

سفارتی حلقوں کا کہنا ہےکہ کسی بھی ملک میں موجود سفیر جو دیکھتا، سنتا اورسمجھتا ہے اس کی رپورٹ اپنی حکومت کو بھیج دیتا ہے اور اسد مجید نے بھی یہی کیا تاہم سابق حکومت نے ایک سفارتی معاملے کو سیاسی رنگ دیکر ناصرف سفارتکاروں کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں بلکہ دوست اور اتحادی ممالک کی ناراضگی کا بھی احتمال کردیا ہے۔

موجودہ حکومت کیلئے ملک کے اندرپائے جانیوالے چیلنجز کے علاوہ بیرونی سطح پر بھی اقوام عالم کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا ایک مشکل چیلنج درپیش ہے اور حکومت کو اس جعلی سازشی بیانیہ کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اقوام عالم میں تنہائی کا شکار نہ ہوجائے۔

Related Posts