ایغور بطور مصیبت زدہ مسلمان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیاست آپ کو دنیا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے جب تک آپ اسے مزید سمجھنے کے لائق نہ رہیں اور پھر یہ آپ کو ایک قید و بند کے کیمپ میں صعوبتیں برداشت کرنے کیلئے چھوڑ دیتی ہے۔ سیاست اور مذہب دونوں پر ہیتھر مورس نے لکھا اور یہ الفاظ اس کے ناول میں دیکھے جاسکتے ہیں جس کا نام دی ٹیٹوسٹ آف آشوٹز ہے جو لڈوگ ایزنبرگ کی زندگی پر لکھا گیا جس میں 3سالہ گہرائی سے لیے گئے انٹرویوز شامل ہیں جن کے مطابق 60 لاکھ سے زائد یہودیوں کو گیس چیمبرز، فاقہ کشی، بدنظمی، قانونی چارہ جوئی اور اجتماعی قتلِ عام کے نتیجے میں زندگی سے محروم ہونا پڑا۔ نازی جرمنی نے بڑے پیمانے پر قتل کیے اور جب حقیقت سامنے آئی تو دنیا گھبرا گئی۔

یکم نومبر 2005ء میں اقوامِ متحدہ کے 42 ویں پلینری اجلاس کے دوران جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 7/60 منظور کی جس کے تحت 27 جنوی کو ہولوکاسٹ کا عالمی یادگار دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دن آوشٹنربرکیناؤ جو نازی کا سب سے بڑا حراستی اور موت کا خون آشام کیمپ تھا، کو سرخ فوج (ریڈ آرمی) نے دوسری جنگِ عظیم کے سانحے کی یاد دلانے کیلئے آزاد کرایا۔ تین سال بعد اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے اِس دن کو مناتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی یادوں سے آگے بڑھ کر اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے تاکہ تمام لوگ اقوامِ متحدہ کے تحت انسانی حقوق کے تحفظ سے پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ پوری دنیا نے اِس سے اتفاق کیا کہ  اِس طرح کا ظلم ستم دوبارہ کبھی نہیں ہونا چاہئے تاہم آج چین میں موجود ایغور مسلمان ٹھیک اسی طرح کا ظلم و ستم سہہ رہے ہیں جیسا کہ نازی جرمنی کے دور میں یہودیوں کے ساتھ ہوا تھا اور دنیا نے مظالم کو روکنے کیلئے جو کام کیا ہے وہ بے حد کم ہے۔

چائنا کیبلز سے مراد چینی حکومت کی وہ دستاویزات ہیں جو  جلا وطن ایغور مسلمانوں کی طرف سے عالمی کنسورشیم برائے تحقیقاتی صحافت کو جاری کیے گئے ۔ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ 10 لاکھ ایغور مسلمانوں کو چین کے مغربی ژنجیانگ کے علاقے میں محصور رکھا گیا ہے۔ ریوٹرز کی طرف سے جاری کردہ سٹیلائٹ تصاویر کے قریبی معائنے سے معلوم ہوا کہ اپریل 2017ء سے لے کر اگست 2018ء تک 39 کیمپس کا حجم 3 گنا ہوا اور اب مصیبت زدہ ایغور مسلمانوں کیلئے تکلیف دہ کیمپس کا رقبہ فٹبال کے 40 میدانوں جتنا بڑا ہے۔ ژنجیانگ پر تحقیق کرنے والے جرمنی کے محقق ایڈریان زینز کے مطابق ژنجیانگ میں سیکورٹی کے حوالے سے تعمیراتی کام میں 20 ارب یوان کا اضافہ صرف 2017ء میں نوٹ کیا گیا جو عموماً 2 اعشاریہ 96 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اِن کیمپس کی دیواروں کے درمیان ایغور مسلمانوں کو مختلف مصائب کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ایمان کے برخلاف چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیعت لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔  

عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں مثلاً  ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چینی حکومت مسلمانوں کو تشدد، فاقہ کشی اور جبری نس بندی جیسے انسانیت سوز مظالم کی ذمہ دارہے۔ ریڈیو فری ایشیاء کی نومبر 2019ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہان چینی افراد اور ایغور مسلمان خواتین کے درمیان زبردستی ساتھ رہنے کا ایک معاہدہ ہواجس کا تعلق بڑے پیمانے پار زناکاری سے ہے۔ رپورٹ میں ظلم و تشدد کے دیگر عوامل کا انکشاف بھی کیا گیا جن میں زندہ انسانوں کے اعضاء کا حصول بھی شامل ہے۔ درونِ خانہ ان مظالم سے چینی حکومت کا مقصد اسلام کا صفایا ہے۔ قرآن کے معاملے پر گرفتاریاں، (یو ایچ آر پی کے مطابق) 15 ہزار سے زائد مساجد کا انہدام ، (آر ایف اے کے مطابق) مساجد کی جگہوں پر ٹائلٹس کی تعمیر، (اے ایف پی کے مطابق) 45 سے زائد مسلم قبرستانوں کی بے حرمتی بھی انہی ظالمانہ اور مسلم دشمن اقدامات کا حصہ ہے۔

ایغور ایکٹیوسٹ روشن عباس جس کے اہلِ خانہ کو ژنجیانگ کے کیمپس میں 1 سال سے زائد عرصے کیلئے محصور رکھا گیا، یہ اصرار کرتا ہے کہ چین کا ملک کی مخصوص نسل پر مشتمل اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن قتلِ عام کے علاوہ کچھ اور قرار نہیں دیاجاسکتا۔ دوسری جانب چینی حکومت نے اپنے پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے اسے ووکیشنل ایجوکیشن اور تربیتی پروگرام قرار دیا ہے لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ نازی کیمپس جن میں ڈکاؤ، برکیناؤ، ویڈل اور دیگر شامل تھے، انہیں ہمیشہ ورک کیمپس کے طور پر تعمیر کیا گیا جس میں یہ ارادہ شامل تھا کہ وہاں قیدیوں کو بہتر بنانے کیلئے رکھا جائے گا اور حتمی حل یہ نکلا کہ بعد ازاں یہی کیمپ گیس چیمبرز بنا لیے گئے۔ اسی طرح بہت سے ایسے کیمپس کے بیرونی دروازوں پر یہ الفاظ آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں کہ آپ مشکل کام جاری رکھیں، آپ کو آزادی مل جائے گی۔

اقوامِ متحدہ نے بھی قتلِ عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ چین کے تعلمی کیمپس جن میں ایغور مسلمانوں کو رکھا گیا ہے، تک غیر مشروط رسائی دی جائے جس کا ردِ عمل چینی حکومت کی طرف سے یہ آیا ہے کہ آج تک چین نے یہ مطالبہ پورا نہیں کیا اور چین کی طرف سے یہ خاموشی پاکستان سمیت اس کے حلیف ممالک نے بھی خود پر طاری کر رکھی ہے۔ جب وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان جو اسلامی اصولوں کے قابلِ فخر وکیل ہیں، ان سے ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقعے پر ایغور مسلمانوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایغور مسلمانوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ جب رپورٹر نے اصرار کیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ خصوصی رشتہ ہے اور کہا کہ چین نے ہماری مدد کی۔ وہ ہماری مدد کیلئے آئے جب ہم انتہائی مشکل میں گھرے ہوئے تھے اور ہم چینی حکومت کے بے حد شکر گزار ہیں۔ لیکن اسلام کی طرف راغب ہوتے ہوئے بھی صرف آسانی کی بناء پر ناانصافی جائز قرار نہیں دی جاسکتی۔

قرآنِ پاک کی سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور تم کو کیا ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دُعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما؟ (4:75) اگر جہالت جنت ہو تو خاموشی ظلم میں غیر ارادی شرکت ہوتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر سے قطعِ نظر ایغور مسلمانوں کا نسلی بنیادوں پر صفایا پاکستان کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا چاہے ہم سی پیک سے کتنے ہی فوائد اٹھا لیں۔ بہت سے لوگوں نے ایغور مسلمانوں کے قتلِ عام کو خالصتاً ایک پروپیگنڈہ قرار دیا ہے جو ان کے خیال میں امریکا چین کو غیر مستحکم کرنے کیلئے کر رہا ہے تاکہ پاکستان سمیت دیگر ممالک سے اس کے تعلقات خراب ہوجائیں۔ نسلی بنیادوں پر قتلِ عام کے الزامات شاید حقیقت پر مبنی نہ ہوں لیکن ان دعووں کو غلط ثابت کرنے کا بار چینی حکومت پر عائد ہوتا ہے تاکہ وہ مذکورہ کیمپس تک رسائی فراہم کرے۔

ایغور مسلمانوں کا چینی حکومت کے ہاتھوں ممکنہ قتلِ عام ایک ایسی بات ہے جس پر پاکستان کو کھل کر اپنی تشویش چین اور عالمی برادری کے سامنے رکھنی چاہئے۔ یہ کوئی رسمی بات نہیں جس کا ہلکے پھلکے انداز میں ذکر کرکے آگے بڑھا جائے۔ ہمیں بڑھتی ہوئی جہالت سے چھٹکارہ پا کر معاملے کی تحقیق کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ اقتصادی ترقی اگر انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حاصل کرنی پڑے تو اس سے احتراز بہتر ہے۔ پاک چین تعلقات اور سی پیک پر پیش رفت بھی ضروری ہے تاہم اِس کا طریقہ کار صاف  و شفاف ہونا چاہئے۔ اگر ہم اپنے کشمیری بھائیوں کیلئے اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہوسکتے ہیں تو ایغور مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے بھی آگے بڑھنا ضروری ہے چاہے یہ مشکل ہو۔

Related Posts