عرب اسرائیل تعلقات نے مسلم دنیا کو پھر منقسم کردیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عالمی سطح پر ایک حیرت انگیز پیشرفت سامنے آئی جب جمعرات کو متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں اور یہ پہلاخلیجی ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے جس کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے عرب ممالک بھی برسوں کی صوابدیدی ملاقاتوں کے بعد تعلقات معمول پر لائیں گے۔

اس معاہدے کوابراہیم معاہدہ کہا جاتا ہے کہ غالباًامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے کو تاریخی اور مشرق وسطی کے امن کی طرف پیشرفت قرار دیا ہےتاہم فلسطین کی آزادی کی راہ میں متحدہ عرب امارات کامعاہدہ بہت بڑا دھچکا ہوگا۔

ایران کے ساتھ باہمی چپقلش کے باوجود خلیجی عرب ممالک کااسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھاجبکہ اس کے برعکس مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے اس فیصلے کا دفاع کیا ہے اور اس فیصلے کو حقیقت پسندی قرار دیا ہے۔ ابو ظہبی کے ولی عہد کاکہنا ہے کہ یہ فیصلہ امارات کے ایک حقیقت پسندانہ انداز کی عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ متحدہ عرب امارات کے اتحادیوں اور دیگر خلیجی عرب ممالک کے ذریعہ اس معاہدے کا خیرمقدم کیا جارہا ہے لیکن ایران اور ترکی جیسے دوسرے اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اس پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

ایران نے اسرائیلی سے تعلقات قائم کرنے کو فلسطینی مقصد پر چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے جبکہ ترکی نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کے لئے تاریخ متحدہ عرب امارات کو کبھی معاف نہیں کرے گی ، اس معاملے نے ایک بار پھر مسلم دنیا کومنقسم ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد فلسطین کاز پس پشت جاچکا ہے اور دو ریاستی حل ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔متحدہ عرب امارات کے لئے اگلا قدم مکمل سفارتی تعلقات ، سفارت خانے ، تجارتی تعلقات اور دیگر متنوع تعاون کو قائم کرنا ہے۔

تعلقات کو معمول پر لانا عرب اسرائیل تعلقات میں ایک بہت بڑے قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہ سوالات باقی ہیں کہ کیا اس سے جامع امن ہو گا کیوں کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک بار پھر پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کے بعد فلسطینی اور غیر عرب مسلم ممالک یقیناً مایوس ہوں گے،پاکستان کو بھی اس وقت مشکل صورتحال سامنا ہے ، پاکستان اس شش و پنج کا شکار ہے کہ آیا اس فیصلے پر اپنے عرب اتحادیوں کا ساتھ دے یا فلسطینی مقصد کے لئے اپنے عزم پر قائم رہے تاہم ایک بات تو حقیقت ہے کہ اس فیصلے سے فلسطین کی آزاد اور خودمختار ریاست کی امید کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

Related Posts