کیا ہونے جا رہا ہے ؟دو سازشی تھیوریز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا ہونے جا رہا ہے ؟دو سازشی تھیوریز
کیا ہونے جا رہا ہے ؟دو سازشی تھیوریز

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سازشی تھیوری یا کانسپریسی (Conspiracy)تھیوری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اکثر مس گائیڈ کر دیتی ہے، لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرتی ہیں اور بہت بار غلط اطلاعات پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو مگر یہ ہے کہ بعض اوقات یہ درست نکل آتی ہیں۔اس لئے ان تھیوریز کو اٹھا کر ڈسٹ بن میں نہیں پھینکا جا سکتا، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ان پر بات کرنا پڑتی ہے۔ حقیقی زندگی ہی میں نہیں بلکہ فلموں ، ڈراموں میں بھی کئی باریہ سچ ثابت ہوتی ہیں۔ دو مثالیں دیتا ہوں۔

دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے قبل اسلام آباد کے ایک معروف بزرگ صحافی نے اپنے ایک اردو کالم میں ذکر کیا کہ اگرچہ اسے کانسپریسی تھیوری ہی سمجھیں مگر اسلام آباد کے بعض حلقوں میں تحریک انصاف کو ایک سو سولہ نشستیں ملنے کی بات ہو رہی ہے۔ الیکشن سے پہلے کسی نے اس بات کو سیرئس نہیں لیا اور ایک صحافی کی نکتہ سنجی ہی قرار دیا۔ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو 116سیٹیں ہی ملیں۔ بعض لوگ اسی وجہ سے الیکشن کی رات آرٹی ایس سسٹم بند ہونے کو اپوزیشن کے خلاف نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔

دوسری مثال شوبز سے ہے۔ گیمز آ ف تھرون مشہور ڈرامہ سیزن تھا، اسے ایچ بی او چینل نے چلایا تھا۔ اس کا آٹھواں سیزن آخری تھا۔ ایچ بی او پر ہر ہفتے ایک قسط نشر ہوتی تھی۔ آخری قسط سے پہلے بعض آرٹیکل پڑھے جن میں مختلف کانسپریسی تھیوریز بیان کی گئیں، ایک میں آخری قسط کا پورا خلاصہ لکھا گیا۔ وہ سب کچھ اتنا عجیب اور ناقابل یقین تھا کہ میں نے اسے فضول سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ جب آخری قسط دیکھی تو ہکابکا رہ گیا کہ جس رپورٹ کو قطعی اہمیت نہیں دی تھی، وہ سو فی صددرست نکلی۔

یہ دو واقعات تو اس حوالے سے تھے کہ کیسے ان سازشی نظریات میں سے چیزیں سچ نکل آتی ہیں، مگر بہت بار یہ بے بنیاد اور غلط بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اس لئے اپنے پڑھنے والوں کو مفت مشورہ یہی ہے کہ آنکھیں کھلی رکھیں، ہر چیز کو جانچنے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کریں۔ تب خبر، افواہ، قیاس، تمناﺅں میں فرق بھی پتہ چل جائے گا۔

پہلی کانسپریسی تھیوری پیپلزپارٹی کے حوالے سے ہے۔ اس کے مطابق حکومت کے لئے اگلی باری پیپلزپارٹی کی ہے۔ جناب ِزرداری نے پچھلے سال ڈیڈھ میں بڑی عمدگی اور ہوشیاری سے اپنے تمام کارڈز کھیلے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے آج تک دیکھ لیں۔ پیپلزپارٹی نے خاصے فوائد اور سیاسی ثمرات سمیٹے ہیں، مگر اس کے حصے میں نقصان یا خسارہ نہیں آیا۔ ن لیگ نے بھی فائدے اٹھائے،مگر انہیں نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔

آصف زرداری کو معلوم تھا کہ اس بار وہ کوشش بھی کریں ، تب بھی ان کا وزیراعظم نہیں بن سکے گا، وہ بلاول کے علاوہ کسی اور کو وزیراعظم بنانا بھی نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے شہباز شریف کا نام وزیراعظم کے لئے پیش کیا۔ وزیرداخلہ کے لئے ن لیگ کسی کو بھی عہدہ دے سکتی تھی، زرداری صاحب نے دانستہ رانا ثنااللہ کا نام پیش کیا،انہیں لگتا تھا کہ رانا صاحب جیسا سخت گیر وزیرداخلہ ہی ن لیگ کو نقصان پہنچائے گا۔ وہی ہوا۔

جو سازشی تھیوری بیان کی جاتی ہے، اس کے مطابق زرداری صاحب نے اہم حلقوں میں معاملات سیٹ کر لئے ہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سندھ تو ہمارے ہاتھ میں ہی ہے، بلوچستان کی حکومت مزید ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے وہ خاصی ڈویلپمنٹ کر چکے ہیں، وہاں کے کئی اہم سردار اور الیکٹ ایبلز پی پی پی میں شامل ہوگئے۔ الیکشن کے قریب دو چار مزید بھی شامل ہوجائیں گے اور بلوچستان کی اس وقت حکمران جماعت باپ شائد بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے ۔

زرداری صاحب کا اگلا ٹارگٹ پنجاب ، خاص کر جنوبی پنجاب میں درجن بھر مزید نشستیں جیتنا ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں انہیں رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود کی وجہ سے دو سیٹیں ملی تھی، ایک سیٹ پنڈی سے راجہ رینٹل کے نام سے مشہور ہونے والے سابق وزیراعظم نے جیتی ۔ مظفر گڑھ سے انہیں غیر متوقع طور پر دو تین سیٹیں مل گئی تھیں۔ اس بار زرداری صاحب کو توقع ہے کہ وہ بہاولپور ڈویژن سے تین چار مزید سیٹیں جیت سکتے ہیں، ملتان سے گیلانی صاحب بھی اس بار اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں، اسی طرح بعض دیگر پاکٹس سے بھی پیپلزپارٹی اچھے امیدوار تلاش کر رہی ہے ، ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد یہ سیٹیں نکالنا آسان ہوجائے گا۔

زرداری صاحب کراچی اور حیدرآباد سے بھی مزید سیٹیں جیتنا چاہتے ہیں۔کے پی میں مالاکنڈ ڈویژن میں ایک دو پاکٹس پرو پیپلزپارٹی ہیں۔زرداری صاحب کا ہدف ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ اتنی نشستیں لے سکیں کہ آج کے پی ڈی ایم اتحاد کی طرح ایک مخلوط حکومت بن جائے اور وزیراعظم بلاول بھٹو بنیں۔

پچھلے چند ماہ میں بلاول نے اس ضمن میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میں اپنا اثرورسوخ خاصا بڑھایا ہے۔ ان کے بیانات امریکی اسٹیبلشمنٹ سے ہم آہنگ ہیں، وہ مغرب کی نظر میں ایک سافٹ امیج رکھنے والے سیکولر پاکستانی وزیراعظم کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب آج کل اسی لئے مختلف جگہوں پر یہ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو بننا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف عملی تجربہ حاصل کر سکیں بلکہ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط کریں۔

مریم کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر پیش کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ مرکز سے دور رہیںاور بلاول کے لئے آسانی پیدا ہو۔ زرداری صاحب کی شہرت مل بانٹ کر کھانے والے کی ہے اور ان میں سیاسی ٹمپرامنٹ بھی موجود ہے۔ وہ بتدریج اپنی قوت بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے بلاول اگلی بار وزیراعظم نہ بن سکتا تب بھی وہ مرکز میں اپنا مزید شیئر بڑھا لیں گے، ان کے لئے یہ بھی کچھ کم کامیابی نہیں ہوگی۔

بعض حلقوں کے نزدیک نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے اپنے قریبی ساتھی کو بنوانا بھی زرداری صاحب کی کامیابی ہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے اندازے کس حد تک درست رہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ان کا کس حد تک ساتھ دے پاتی ہے؟

دوسری تھیوری کا تعلق میاں نواز شریف سے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک میاں صاحب سے ملنے والے نجی محفلوں میں یہ بتاتے تھے کہ نواز شریف اب پہلے سے بہت بدل گئے ہیں، وہ سیاسی باتیں زیادہ نہیں کرتے اور ان کا طرزعمل کسی ریٹائر بزرگ سیاستدان جیسا ہوگیا ہے، جس کی تمام تر دلچسپی اپنی اولاد کو آگے بڑھانے اور اپنے پوتے پوتیوں، نواسیوں وغیرہ سے کھیلنا، دل بہلانا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے تب مقتدر حلقے بھی اس پر پریشان تھے کہ ہر رپورٹ میں یہی پتہ چلتا ہے کہ میاں نواز شریف دفتر آئے، لوگوں سے گپ شپ کی، اپنی پسندیدہ قلفی منگوا کر کھائی، اپنے پوتے پوتیوں وغیرہ کی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھیں، ان کے گانے سنے، انہیں داد دی اور پھر اٹھ کر گھر واپس چلے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ حیران تھی کہ آخر بڑے میاں صاحب کیا سوچ رہے ہیں اور کس مار پر ہیں؟

جس کانسپریسی تھیوری کا ذکر کیا، ا سکے مطابق اب میاں صاحب نے وارم اپ ہونا شروع کر دیا ہے۔ وہ پوری سنجیدگی سے وطن واپسی کے بارے میں غور فرما رہے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں وہ واپس آ جائیں۔ پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ خود جلد نہیں آئیں گے اور بیٹی مریم کو بھیج رہے ہیں۔ اب شائد اندازہ ہوگیا کہ پنجاب کا معرکہ سر کرنے کے لئے صرف مریم کافی نہیں، انہیں خود بھی آ کر بیٹھنا پڑے گا۔

مسلم لیگ ن میں تنظیمی طو رپر خاصی اوورہالنگ ہونی ہے۔ اگر مریم نواز نے اپنے طور پر یہ سب کچھ کیا تو ٹوٹ پھوٹ کا امکان ہے۔ اگر میاں نواز شریف لاہور میں بیٹھے ہوں تو پھر شاہد خاقان عباسی سمیت کسی اور لیگی رہنما کی جرات نہیں کہ وہ الگ ہوسکے یا صدائے احتجاج بلند کرے۔ شریف خاندان میں سیاسی لیگیسی یا کہہ لیں گدی اگلی نسل کو منتقل ہونی ہے ، یہ کام نواز شریف کی موجودگی میں زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف نہایت پرامید ہیں کہ عمران خان بہت جلد نااہل ہوجائیں گے، نااہلی کے بعد انہیں گرفتار کر کے اندر کر دیا جائے گا اور یوں ان کی روز بروز کی تقریروں سے بھی جان چھوٹ جائے گی ۔

کہا جارہا ہے کہ حکومتی سطح پر ایک پورا پلان بنایا جا چکا ہے کہ کس طرح انصافین رہنماﺅں پر کریک ڈاﺅن ہوگا، مقدمے، گرفتاریاں وغیرہ۔ ہر قابل ذکر رہنما اپنے کیسز بھگتتا پھرے گا ، اس نے سیاست پھر کب کرنی ہے۔ کچھ پرجوش اور اگریسو انصافین کارکن بھی گرفتار ہوں گے، باقی اپنے کھنے سیکے جانے کے بعد امید ہے سبق سیکھ لیں گے۔ تحریک انصاف تب اتنے جوگے نہیں رہے گی کہ الیکشن جیت سکے۔

البتہ اگر میاں نواز شریف پاکستان واپس آ گئے،فعال سیاست کر کے ن لیگ کو پنجاب میں اٹھا دیا ، تحریک انصاف میں بھی مطلوبہ ٹوٹ پھوٹ ہوگئی، تب وہ زرداری پلان کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ جس طرح میاں صاحب نے اہم تقرریوں میں اپنی بات منوائی ہے اور جس نام پر انگلی رکھی، وہی بنے ، اسی طرح نواز شریف پھروزیراعظم بھی مرضی کا بنوائے گا۔ بلاول بھٹو کے حصے میں تب شائد وزارت خارجہ ہی رہ جائے۔ رہے عمران خان تو ان کے سیاسی مقدر کا دارومدار عوام پر ہے۔ لوگ ووٹ ڈالنے تو نکلے، اب گرفتاری دیتے ہیں یا نہیں، سیاسی احتجاج کرنا پڑا تو کس حد تک ثابت قدم رہیں گے، یہ بڑا سوال ہے اور اسی پر تحریک انصاف کی سیاست کھڑی ہے۔

خیر یہ تو کانسپریسی تھیوریز ہیں، ان کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے، وقت ہی ان کا فیصلہ کرے گا۔ آپ بھی انہیں گپ شپ سمجھیں اور لطف اٹھائیں۔

Related Posts