ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ ہموار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جیسے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین تقریر ختم کی ، اسپیکر نینسی پیلوسی نے کھڑے ہوکر اس کو دو ٹکڑوں میں پھاڑ دیا ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی کانگریس اور یہاں تک کہ امریکی عوام بھی سیاسی معاملات پر کس حد تک تقسیم ہو گئے ہیں۔

اس تقریر سے امریکا میں جاری تقسیم کھل کر سامنے آئی جس نے واشنگٹن کو بری طرح جکڑ لیا ہے، روائتی طور پر اسٹیٹ آف دی یونین تقریر کو سیاسی طور پر اہم موقع سمجھا جاتا ہے جب امریکی صدرپارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہیں لیکن ٹرمپ کی تقریر نے ملک میں جاری سیاسی جنگ کی عکاسی کی۔ بہر حال ، یہ انتخابی سال ہے اور ٹرمپ دوسری مرتبہ بھی صدارتی انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار نظر آتے ہیں۔

نینسی پیلوسی نے بعدازاں کہا کہ دیگر آپشنز کے مقابلے میں ٹرمپ کی تقریر پھاڑ دینا ایک مہذب حرکت تھی اور انہوں نے امریکی صدر کی تقریر کو گھناؤنا قرار دیا۔ نینسی پیلوسی ٹرمپ کے کیلیفورنیا سے متعلق ریمارکس پر بھی ناراض نظر آئی جہاں سے وہ الیکشن میں منتخب ہوئی تھیں۔ ٹرمپ کی تقریرکا آغاز نسل پرستی پر مبنی جملوں سے ہوا اورتقریر کے اختتام پر بہت سارے ڈیموکریٹس نے احتجاج کیا۔نینسی پیلوسی ٹرمپ کے مواخذے کا اہم کردار ہیں جس کی وجہ سے ٹرمپ نے ان سے مصافحہ بھی نہیں کیا۔

ٹرمپ اور پیلوسی کے درمیان تناؤ مواخذے کی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ امریکی سینیٹ ٹرمپ کو بری کرنے کے تیار ہیں اور مواخذے کی کارروائی کو محض دکھاوا سمجھاجارہا ہے جو 2 ہفتوں سے بھی کم عر صے جاری رہا۔ ریپبلکن یہاں تک کہ عینی شاہدین یا گواہوں کو مقدمے کی سماعت کا حصہ نہیں بننے دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے تقریر کے دوران لفظ مواخذے کا ذکر تک نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے مقدمے کی کارروائی کا حوالہ دیا۔

ٹرمپ کے لیے اگلا قدم خود کو تنازعات سے نکالنا ہے۔اپنی تقریر کی شروعات ٹرمپ نے اپنی متنازعہ معاشی پالیسیوں کوسراہا ۔ حالانہ چین کے ساتھ امریکا کی تجارتی جنگ نے عالمی منڈیوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا تھا جبکہ کرونا وائرس کے باعث چینی معیشت نےبھی ایک دہائی میں معاشی سست روی دیکھی۔ اپنے خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکا کے زوال پذیر ہونے کے خیال کومسترد کردیا ہے۔

دوسری طرف ڈیموکریٹس ٹرمپ کے مقابلے کےلیے صدارتی حریف پر غور کررہے ہیں۔الیکشن سے قبل انتخابی عمل میں تکنیکی خرابیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔جو بائیڈن کے بجائے برنی سینڈرزکو ٹرمپ کا زیادہ مظبوط حریف سمجھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ اپنی قدامت پسندجماعت کی توجہ حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور انہیں اس میں مہارت بھی حاصل ہے۔ٹرمپ کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی منظوری کی درجہ بندی میں اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح وہ ایک بار پھر امریکی صدارتی امیدوارکے طور پر نظر آئیں گے ۔

Related Posts