اللہ سے ون ٹو ون ہونا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

انسان اپنی خالص ترین حالت میں بلوغ سے قبل ہوتا ہے۔ اس کی سرشت اور فطرت کیا ہے؟ اس کا ٹھیک ٹھیک جواب بچے کے بغور مشاہدے سے ملتا ہے۔

بڑا ہونے پر اس کی سرشت پر قدرت اور تہذیب کی لگام پڑ جاتی ہے، چنانچہ آپ اس سے تہذیب و مذہب کو نکال دیں تو پیچھے صرف ایک “جانور” رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے:

”انسان خسارے میں ہے۔ الا یہ کہ وہ اچھے کام کرے۔ حق کی تلقین اور صبر کی وصیت کرے۔“

سورۂ عصر کے اس ٹکڑے میں آیت نمبر 2 ”انسان خسارے میں ہے“ ایک مکمل سٹیٹمنٹ ہے جو یہ کہتی ہے کہ مذہب اور تہذیب کے بغیر یہ جانور سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور خسارے میں نہیں ہے۔ جبکہ انسان اپنی جانور والی حالت میں خسارے میں ہے اور اس خسارے کا سبب اس کی ”عقل“ ہے۔ جب یہ صاحب عقل ہوکر اپنی جانور والی حالت پر قناعت کرے گا تو پھر نتائج بھی بھگتے گا جو خسارے کے سوا کچھ نہیں۔

بچوں کی دو مشہور زمانہ حرکتیں ہم بڑوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ خدا سے تعلق کس طرح رکھنا چاہئے۔ ایک یہ کہ جب بچے کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس کے لئے اس کے سامنے روتا ہے جس سے ملنے کی توقع ہو۔ یہاں تک کہ زندگی کی بالکل ابتدائی سٹیج پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ خوراک کی ڈیمانڈ رو کر کرتا ہے۔ گویا وہ اپنی زندگی کا سب سے پہلا مطالبہ ہی رو کر سامنے لاتا ہے۔ اور یہ رونا اس کی شدتِ طلب کو ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ اللہ سے مانگتے ہوئے گریہ فرمایا کرتے اور گریے کی ہی امت کو تلقین بھی فرمائی۔

یہی گریہ بچہ کسی چیز سے محرومی پر بھی کرتا ہے۔ اس کا کوئی کھلونا ٹوٹ جائے، یہ گریہ کرتا ہے، گم ہوجائے، یہ گریہ کرتا ہے، کوئی چھین لے، یہ گریہ کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بڑی عمر میں آکر بھی کسی عزیز سے اس کے انتقال کی صورت محروم ہوجائے تو گریہ کرتا ہے۔ مکان یا پلاٹ چھن جائے تو گریہ کرتا ہے، اچھی جاب سے محرومی پر گریہ کرتا ہے۔ غرضیکہ ہر محرومی پر اس کا انتہائی ردِعمل گریے کی صورت ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت ”ایمانی زندگی“ سے محرومی پر بھی یہ گریہ کرتا ہے؟ ایمانی زندگی سے ہماری مراد کفر نہیں بلکہ مثبت اعمال والی زندگی ہے۔ ایمان اور کفر کی اصل تقسیم تو مثبت اور منفی کی ہی تقسیم ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا ”اثبات“ حق کے آگے اپنی منشا سرنڈر کرنا ہے۔ سو کلمہ گو کے اعمال پر اگر شر غالب ہے تو یہ ایک بڑی محرومی ہے۔ کیا ہم اس محرومی پر گریہ چھوڑیے، تنہائی میں ندامت کا بھی اظہار کرتے ہیں؟

ندامت کوئی معمولی چیز نہیں۔ اس میں صرف اظہار افسوس تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ ندامت کا پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پھر اس غلطی کو دہرانے سے گریز کرتا ہے۔ چنانچہ توبہ کی توفیق بھی ندامت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ توبہ ایک عہد ہے۔ اس بات کا عہد کہ میرے رب جو میں نے کیا غلط کیا، آپ معاف کردیجئے۔ اور معافی کے ساتھ یہ بات جڑی ہوئی ہے کہ ”آئندہ نہیں کروں گا“ چنانچہ عادی مجرموں میں اپنے اعمال پر ندامت نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ کہ توبہ بھی نہیں ہوتی۔ اور توبہ نہ ہونے کا نتیجہ یہ کہ مجرمانہ زندگی کا تسلسل رہتا ہے۔

قرآن کا مطالعہ رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ”ایفائے عہد“ پر بہت زور بھی دیا ہے اور عہد شکنی پر وعیدیں بھی بیان کی ہیں۔ مگر اپنے اور بندے کے عہد کے معاملے میں اس نے اپنی شانِ رحیمی کو یوں غالب رکھا ہے کہ کہتا ہے، اگر توبہ ٹوٹ بھی جائے، یعنی جرم دہرا ، اور تہرا بھی لو تو تمہارے لئے میرا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ کوئی بات نہیں، ایک بار پھر توبہ کرلو۔ چنانچہ علمائے دین نے بالکل درست بیان کیا ہے کہ توبہ کی کثرت رکھنے والا شخص بالآخر اللہ سبحانہ و تعالی سے ایفائے عہد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

بچے سے ہی ہم دوسری بات یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ”تعلق مع اللہ“ یعنی اللہ سے اظہار محبت کی انتہائی صورت کیا ہوتی ہے؟ کبھی غور کیا ہے؟ چار پانچ بچوں کے باپ کے پاس کبھی کبھار کوئی بچہ آکر اس لپٹ جاتا ہے اور کہتا ہے ”ابو میرے ہیں“ یا وہ ماں سے لپٹ کر کہتا ہے ”امی میری ہیں“۔ اگر غور کیجئے تو ابو امی تو باقی چار بچوں کے بھی ہیں۔ اور یہ بات خود وہ بچہ بھی جانتا ہے کہ ابو ہم سب کے ہیں۔ سو اپنے اس جذبے کے ذریعے وہ اس بات سے انکار نہیں کر رہا ہوتا کہ ابو امی باقی بچوں کے نہیں ہیں۔ وہ بس اپنی محبت کا بے پناہ اظہار کر رہا ہوتا ہے۔

سو اللہ سبحانہ و تعالی سے بھی محبت کا اظہار اسی جذبے سے ہونا چاہئے۔ عقیدہ ہمارا یہی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ”رب العالمین“ ہیں۔ لیکن ہمیں اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے کہنا یہ چاہئے ”اے اللہ آپ میرے ہیں“ انسان اللہ سبحانہ و تعالی سے مکالمہ اکثر طور دعاء کی صورت ہی کرتا ہے۔ سو دعاء میں اگر اے رب العالمین کی جگہ ”اے میرے رب“ کی ترکیب اختیار کر لی جائے اور بالکل بچے کی طرح بھرپور جذبے کے ساتھ رکھ لی جائے تو اظہار محبت کی بھرپور صورت بن جائے گی۔ دعاء میں تو اللہ سبحانہ و تعالی کو اپنے ساتھ بالکل ”ون ٹو ون“ کر لینا چاہئے۔ آپ اسے ون ٹو ون کرکے تو دیکھئے، پھر دیکھئے جواب آتا ہے کہ نہیں۔

انبیاء کرام علیھم السلام اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ ون ٹو ون رہا کرتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سبحانہ و تعالی سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ”مجھے یہ دکھایئے کہ اپ مردے کو زندہ کس طرح کرتے ہیں تو طرز خطاب ”اے رب العالمین“ کا نہیں بلکہ ”اے میرے رب“ کا تھا۔ اسی طرح  حضرت ایوب  علیہ السلام اپنی مشہور زمانہ دعاء میں بھی ”اے میرے رب“ کی ترکیب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دیگر انبیاء علیھم السلام کی دعائیں یا گفتگو بھی ون ٹو ون والے اصول پر ملتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اے رب العالمین کہنا غلط ہے۔ ہم بس یہ کہہ رہے ہیں کہ ”اے میرے رب“ میں اپنائیت اعلیٰ ترین درجے کی ہے۔ یہ بالکل بچے کی طرح اللہ سبحانہ و تعالی پر اپنا یہ دعوی رکھنا ہے کہ اے میرے رب آپ بس میرے ہی ہیں۔ سو اللہ پر بچے کی طرح اپنا دعویٰ رکھئے، سکون ملے گا، وہ آس پاس محسوس ہوگا۔

Related Posts