جب اسرائیل کی ناک رگڑی گئی۔تیسری قسط

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایک گھنٹے کے اندر اندر ڈینی یاتون کا ہیلی کاپٹر اردن کے دارالحکومت عمان کے شاہی محل میں لینڈ کر گیا۔

شاہ حسین سے ملاقات سے قبل ڈینی یاتون سے اردن کے انٹیلی جنس چیف میجر جنرل سمیح بطیخی اور شاہ حسین کے چیف آف سٹاف میجر جنرل علی شکری ملے۔ علی شکری اس ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں: 

”ڈینی یاتون نے میجر جنرل سمیح بطیخی کے سامنے اعتراف کرلیا کہ وادی السیر تھانے میں موجود دونوں افراد موساد کے ایجنٹ ہیں، اور یہ کہ یہ ایک قاتلانہ حملہ ہی تھا۔ اس اعتراف کے بعد شاہ حسین میٹنگ میں شریک ہوئے تو وہ سخت غصے میں تھے۔ انہوں نے ڈینی یاتون سے پوچھا: ”اردن کی سرزمین پر اس آپریشن کی تم نے جرات کیسے کی؟“ ڈینی نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ اقدام آپ کے خلاف نہ تھا، یہ ہم نے حماس کے خلاف کیا“۔ یہ بات سن کر شاہ حسین میٹنگ سے اٹھ گئے اور مجھے اپنے آفس میں طلب کر لیا۔ کنگ نے مجھ سے کہا کہ ”اسے کہو کہ بلا تاخیر تریاق فراہم کرے، اور استعمال کئے گئے زہر کی ساری تفصیلات بھی فراہم کرے، اور اسے یہ بھی بتا دو کہ اگر خالد مشعل مرا تو امن معاہدہ بھی ساتھ مرے گا۔“

اسی دن شاہ حسین نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی دھمکی پبلک بھی کردی۔ شاہ حسین نے کہا کہ ”ہمارے ایک بیٹے کی زندگی پر بزدلانہ حملہ ہوا ہے۔ہم معاملے کو پوری سنجیدگی سے ہینڈل کر رہے ہیں۔ لیکن میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس طرح کی حرکتیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ہم اسے ہم سب پر حملہ سمجھتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔“

سطحی نظر رکھنے والا کوئی شخص سوچ سکتا ہے کہ اس میں تو کوئی دھمکی نہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں دھمکی کچھ اس طرح کے جملوں کو سمجھا جاتا ہے کہ ”ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے“ سو ہم سمجھاتے ہیں کہ یہ جملے اپنے اندر کیا معنیویت رکھتے ہیں۔ جب کوئی عالمی لیڈر بات کرتا ہے تو تجزیہ کار سب سے پہلے اس کے الفاظ کے چناؤ پر غور کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے سادہ سے الفاظ بھی اپنے اندر گہری معنویت رکھتے ہیں۔ مثلا آپ شاہ حسین کے پہلے جملے کو ہی لے لیجئے: ”ہمارے ایک بیٹے کی زندگی پر بزدلانہ حملہ ہوا ہے۔“

اس کی معنویت یہ ہے کہ باپ اپنے بیٹے پر حملہ کبھی بھی جانے نہیں دیتا۔ سو خالد مشعل کو محض بیٹا قرار دیدینے سے ہی واضح تھا کہ اب شاہ حسین اس واقعے کو سبق سکھائے بغیر جانے نہیں دیں گے۔ دوسرا جملہ ہے کہ ”ہم اس واقعے کو پوری سنجیدگی سے ہینڈل کر رہے ہیں۔“

یہ جملہ یہ بتاتا ہے کہ اس پر آنے والا ردعمل کوئی جذباتی اور سرسری نہ ہوگا بلکہ سوچا سمجھا اور بھرپور ہوگا۔ تیسرا جملہ دیکھئے کہ ”اس طرح کی صورتحال کسی صورت قابل قبول نہیں۔“

اس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے یہ معاملہ دبا لیا تو یہ کل کلاں پھر ہوگا اور شاید اس سے کچھ بڑا ہی ہو، لھٰذا یہ پہلا ہی حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں اس کا جواب آئے گا۔ آخری جملے میں کہا جارہا ہے کہ ”ہم اسے ہم سب پر حملہ سمجھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔“

یہ سب سے طاقتور جملہ ہے۔ اس میں شاہ حسین نے یہ واضح کیا کہ یہ صرف حماس پر نہیں اردن پر بھی حملہ ہے۔ اور ”ہم سب“ کا مطلب تو بالکل ہی کلیئر ہے کہ ہم سب ایک ہی ہیں۔ ہم میں کوئی فرق نہیں۔ ساتھ ہی اس جملے کے اگلے حصے میں کہا جا رہا ہے کہ ہماری جانب کوئی کنفیوژن نہیں کہ کیا کریں؟ کیسے کریں؟ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ پھر سب سے اہم ترین چیز یہ کہ بینجمن نیتن یاہو نے موساد چیف ڈینی یاتون کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ ہم تریاق فراہم کر رہے ہیں، آپ معاملہ دبا دیجئے۔ شاہ حسین نے تقریب سے خطاب کی صورت پورا معاملہ پبلک کرکے بینجمن نیتن یاہو پر واضح کردیا کہ یہ معاملہ دبایا بھی نہیں جائے گا اور اسے ہینڈل بھی میں خود کروں گا۔

اسی دن شاہ حسین نے حکم دیا کہ خالد مشعل کو فوری طور پر کنگ حسین میڈیکل سٹی منتقل کیا جائے۔ اور ان کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، مگر ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی۔ کنگ حسین کا حکم آتے ہی پولیس نے عمان کے اسلامک ہسپتال کو حفاظتی حصار میں لے لیا اور حکام خالد مشعل کو وہاں سے الحسین میڈیکل سٹی منتقل کرنے کے لئے ان کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ حماس کے محمد نزال وہاں موجود تھے، وہ کنگ حسین کی تقریر اور حکم سے آگاہ نہیں تھے۔ سو وہ یہی سمجھے کہ پولیس معاملہ دبانے کے لئے خالد مشعل کو حاصل کر رہی ہے۔

چنانچہ محمد نزال نے مزاحمت شروع کردی کہ وہ خالد مشعل کو لے جانے نہیں دیں گے۔ حماس لیڈر موسیٰ ابو مرزوق کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے فوری طور پر اردن کے انٹیلی جنس چیف میجر جنرل سمیح بطیخی سے رابطہ کیا۔ بطیخی نے بتایا کہ کنگ کا حکم ہے، تعمیل ضروری ہے۔ ابو مرزوق نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ مشعل ہماری دسترس سے باہر ہوجائیں گے سو ہمیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ چل کیا رہا ہے۔ ہم محض حکام کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ اس پر سمیح بطیخی نے انہیں آگاہ کیا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ حماس کا ایک فرد اور ایک فیملی ممبر ہمہ وقت خالد مشعل کے کمرے میں موجود رہے گا۔ سو جو بھی ہوگا آپ کی نظروں کے سامنے ہوگا۔ یوں خالد کی الحسین میڈیکل سٹی منتقلی ممکن ہوگئی۔

خالد مشعل کو سخت سیکیورٹی میں الحسین میڈیکل سٹی منتقل کردیا گیا اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی ٹیم نے انہیں بچانے کی تمام ممکنہ کوششیں شروع کردیں، مگر وہ جانتے تھے کہ اینٹی ڈوٹ (تریاق) کے بغیر یہ ممکن نہ ہوگا۔ چنانچہ اسی دن کنگ حسین نے امریکی صدر بل کلنٹن سے رابطہ کرکے پوری صورتحال سے بھی آگاہ کیا اور مطالبہ کیا وہ اسرائیل پر تریاق کی فوری فراہمی کے لئے دباؤ ڈالیں۔ کنگ حسین کے چیف آف سٹاف میجر جنرل علی شکری بتاتے ہیں کہ ”کنگ حسین کی فون کال نے بل کلنٹن کو اولاً شدید حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ کلنٹن نے کنگ سے کہا کہ ”وہ ایسا کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ اور شدید غصے میں نیتن یاہو کے لئے کہا “This man is is impossible” کنگ نے کلنٹن کو آگاہ کردیا کہ اگر اسرائیل نے تریاق اور زہر کی نوعیت کی پوری تفصیل فراہم نہ کی اور مشعل کو کچھ ہوا تو امن معاہدہ ختم سمجھئے۔ “

کتاب Kill Khalid کے مصنف Paul Mcgeough کہتے ہیں

”اس روز کلنٹن سے بات کرتے ہوئے کنگ حسین اتنے غصے میں تھے کہ اس کی حرارت دیواروں کا پینٹ اکھاڑنے کے لئے کافی تھی۔“

کنگ حسین کا غصہ تو قابل فہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن کیوں غصے میں تھے؟ وجہ یہ تھی کہ کلنٹن اور امریکہ بطور ریاست اردن اور اسرائیل کے مابین طے پانے والے معاہدے کے گارنٹر تھے۔ یوں گویا موساد کا ایکشن بیک وقت اردن اور امریکہ دونوں پر حملہ تھا۔ موساد نے بطور گارنٹر بل کلنٹن اور امریکہ کو ایک شرمناک صورتحال سے دو چار کردیا تھا۔ اگر خالد جان سے جاتے اور معاہدہ ختم ہوجاتا تو امریکہ کی ”گارنٹی“ کی کیا وقعت رہ جاتی؟ اور آگے چل کر کوئی امریکہ کی کسی گارنٹی پر کیسے بھروسہ کرپاتا؟ اس واقعے پر کلنٹن کی سنجیدگی اور غصے کے متعلق Paul Mcgeough  بتاتے ہیں کہ ”اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسی دن بل کلنٹن سے فون پر بات کی کوشش کی تو نہ صرف یہ کہ کلنٹن نے فون سننے سے انکار کردیا بلکہ پوری کلنٹن انتظامیہ نیتن یاہو سے لاتعلق ہوگئی۔ اور یوں نیتن یاہو پر واضح کردیا کہ اس معاملے میں تم اکیلے ہو، اب جو بھی کرنا ہے خود کرو، ہم کوئی مدد نہیں کریں گے۔ چنانچہ اسی رات تل ابیب میں ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں شریک ایک رکن نے مجھے بتایا کہ اس اجلاس میں کہا گیا، ”صورتحال اتنی بدتر ہے کہ اگر یہ شخص مر گیا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ ہم اسے قبر سے نکال کر پھر سے زندہ کریں۔“

گویا خالد مشعل کی موت سے ہم ایک ناممکن صورتحال سے دوچار ہوجائیں گے۔ (جاری ہے)

Related Posts