اللہ والوں کی دنیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہم آپ کے سامنے بطور مثال تین شیخ رکھتے ہیں

٭ حضرت مولانا زوارحسین شاہ صاحب رحمہ اللہ

٭ ڈاکٹر غلام مصطفے خان رحمہ اللہ

٭ مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ

یہ تینوں بزرگ باقاعدہ پیر رہے۔ کیا آپ نے کراچی میں ان کے مریدوں یا خلفاء کے چرچے سنے ہیں؟ چرچے چھوڑیئے خلفاء یا مریدوں کے نام تک بھی جانتے ہیں؟ کیا آپ نے ان کی کرامتوں کی “کہانیاں” سنی ہیں؟

آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا یا سنا ہوگا۔ کیونکہ یہ حقیقی تصوف والے تھے۔ تصوف تقوی کی دنیا ہے اور ہم کچھ دن قبل واضح کرچکے کہ تقوی کی شرط اولین “رازداری” ہے۔ اب رازداری کی آپ کو دو تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔

کراچی کے علمی و ادبی حلقوں میں ڈاکٹر جمیل جالبی ایک لیجنڈری نام ہے۔ تیس چالیس سال قبل جامعہ کراچی کے وائس چانسلر رہے ہیں۔ آپ یوٹیوب یا گوگل پر ان کی وضع قطع دیکھ لیجئے، آپ کو قطعا نہیں لگے گا یہ صاحب دیندار بھی ہوسکتے ہیں۔ آپ ادبی و علمی حلقوں میں بھی ان کی دینداری کا تذکرہ نہیں سنیں گے، کیونکہ یہ اذان کے بعد کسی سے یہ نہیں کہتے تھے

“آؤ بھئی نماز پڑھ لیں۔”

اور یہی ڈاکٹر جمیل جالبی ڈاکٹر غلام مصطفے خان رحمہ اللہ کے انتہائی قریبی مریدوں میں سے تھے۔ اپنے شیخ کو گھر لے جا کر ان کے قدموں میں بیٹھا کرتے اور خدمت کرتے۔ اور یہ راز کب کھلا ؟ ان کی موت کے سالوں بعد۔

دوسری مثال۔ ہم سے ایک بہت بڑے اللہ والے نے ہمارے والد کے انتقال کے بیس سال بعد کہا:

“آپ کے والد ہمارے پیر بھائی تھے۔”

ہم چونک گئے۔ کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق نہ تو ہمارے والد کے کوئی شیخ تھے اور نہ ہی ہم نے کبھی تصوف کے حوالے سے ان سے کوئی منفی یا مثبت بات سنی۔ ہم نے اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لئے اس اللہ والے سے مختلف اوقات میں غیر محسوس انداز سے کچھ مزید تفصیل جاننے کی کوشش کی تو جو چیزیں انہوں نے بتائیں وہ قابل فہم تھیں، مثلا یہ جملہ:

“ارے بھئی وہ تو ہمارے حضرت کے بہت چہیتے تھے۔”

ہم نے پوچھا:

“حضرت کون؟”

“بھئی ہمارے شیخ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ۔”

اب یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے والد صاحب پر مفتی صاحب رحمہ اللہ واقعی بہت مہربان تھے مگر والد صاحب ہمیشہ ان سے رشتہ استادی شاگردی کا بتایا کرتے تھے۔ کبھی بھی تصوف کا کوئی ذکر نہ کیا۔ سو ہم نے اس الجھن کو دور کرنے کے لئے اپنی والدہ محترمہ سے پوچھا:

“کیا ہمارے والد صاحب کا تصوف سے کوئی تعلق تھا ؟”

“مجھے تو نہیں معلوم۔”

“وہ کسی سے بیعت تھے؟”

“میری معلومات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں۔”

“کوئی ایسی چیز ان میں آپ نے دیکھی جس سے پتہ چلتا ہو کہ ان کا اس سلسلے سے کوئی تعلق ہے؟”

“کیا تم نے خود نہیں دیکھا انہیں ؟ تمہیں کچھ نظر آیا ؟”

“نہیں ہم اپنے بچپن والے دور کی بات کر رہے ہیں۔”

کچھ دیر کے لئے سوچ میں گئیں اور پھر فرمایا:

“وہ اس زمانے میں جمعرات والے دن عصرسے بعد از عشاء تک گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ میں پوچھتی کہ کہاں ہوتے ہیں تو کہتے دوستوں رشتے داروں کے ساتھ ہوتا ہوں۔”

اب یہ وہ دن اور وقت ہے جس میں مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ ہمارے والد صاحب رحمہ اللہ کے انتقال سے ایک دن قبل تا تدفین کچھ چیزیں ظاہر ہوئی تھیں لیکن ہم نے ان کا کبھی ذکر کیا ہے نہ کریں گے۔ یہ ان کے اور اللہ کے بیچ کی چیزیں ہیں، ہم اس طرح کی باتیں پھیلانے کے شدید خلاف ہیں لیکن قابل غور چیز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تصوف سے متعلق اپنے امور اس حد تک “رازداری” میں رکھے ہوئے تھے کہ سگی اولاد اور خلوت کی رفیقہ تک کو خبر نہ ہونے دی۔

تیسری مثال۔ یہاں کراچی والے ڈیفنس میں ملک کے عالمی شہریت یافتہ کارڈیک اسپیشلسٹ کے والد انتقال کر گئے۔ ان کے دوست امام صاحب کو خبر ہوئی تو فورا ان کے گھر پہنچ گئے کہ یہ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو دین کا تو کچھ پتہ ہوتا نہیں۔ کہیں غسل کفن میں کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب مہمانوں کے بجائے اپنے والد کے جسد خاکی کے پاس تھے۔ امام صاحب نے پوچھا

“غسال کو کال کردی ہے؟”

ڈاکٹر صاحب نے چونک کر امام صاحب کی جانب دیکھا:

“غسال کیوں؟ میرے والد کو غسال کیوں غسل دے گا؟ میں کس لئے ہوں؟”

امام صاحب کو ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا۔ بات تھی بھی جھٹکے والی۔ میت کے غسل کا طریقہ تو مساجد کے پیش امام حضرات کو بھی کتاب میں دیکھ کر یاداشت تازہ کرنا پڑتی ہیں۔

جنازے کا وقت آیا اور صفیں بننی شروع ہوئیں تو امام صاحب جنازہ پڑھانے کے لئے فل ریڈی ہوگئے۔ مگر جب صفیں بن گئیں تو ڈاکٹر صاحب نے خود ہی جنازہ پڑھا لیا۔ امام صاحب نے حوصلہ نہیں ہارا۔ انہیں یقین تھا کہ قبر کے امور تو ڈاکٹر صاحب بالکل نہیں جانتے ہوں گے۔ مگر اپنے ابا جی کو قبر میں اتارا بھی ڈاکٹر صاحب نے، خود ان کا رخ بھی درست کیا۔ اور پھر قبر بن جانے کے بعد سرھانے اور قدموں کے رخ کھڑے ہوکر کی جانے والی تلاوت اور دعا بھی خود فرمائی۔ ہم نام بتانے کی غلطی نہیں کرسکتے مگر اتنا ضرور بتا دیتے ہیں کہ اگر آپ ان ڈاکٹر صاحب کو کہیں دیکھ لیں تو ان میں ایک بھی ظاہری علامت ایسی نہیں ملے گی جس سے لگے کہ اس بندے کا دین سے بھی کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ ایک واحد علامت جو ان کے قریبی احباب جانتے ہیں بس یہ ہے کہ ان کی نماز کی جماعت کسی صورت نہیں چھوٹتی۔

سو جانِ عزیز! ہم آپ کو سیدھا سادہ معیار دے رہے ہیں کہ جو “نمائشی” ہوگا وہ اللہ والا نہ ہوگا اور نمائشوں میں بدترین نمائش “کرامات” ہیں۔ اس کے بعد خاص قسم کی امتیازی وضع قطع اور اس کے بعد “عاجز، فقیر، ناکارہ” وغیرہ۔

Related Posts