معیشت کی بہتری کیلئے بزرگوں کا استعمال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان میں بزرگوں سے ناہم نے کچھ سیکھا نا انہیں سکھانے کا موقع دیا مگر ان کو لمبی قطاروں میں کھڑا کردیا پنشن لینے کیلئے اور ان سے جینے کا حق بھی چھینتے رہے یہ کہہ کر اب آپ بزرگ ہوگئے ہو، اب آپ کچھ نہیں کرسکتے جبکہ دنیا بھر میں لوگ بزرگوں کاا حترام کرتے ہیں اور ان کے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان سے مشورہ لیتے ہیں اور ہر ادارہ میں ان کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں کہا یہ جاتا ہے کہ بزرگوں کی مسلمان بہت عزت کرتے ہیں مگر حقیقتاً عزت واحترام کے نام پر انہیں ایک جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے اور نمائش کے طور پر بوقت ضرورت یعنی شادی بیاہ یا ایسی دیگر تقریبات میں لایا جاتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ بزرگ کی دعا لگے گی۔

دعاؤں کے ساتھ ساتھ اگر ہم یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہمیں بزرگوں کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے مشورہ لینا اور ان مشوروں کے تحت آگے بڑھیں لیکن ایسا ہوتانہیں ہے۔

اگر ایک بزرگ اپنے گھر سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اس کے پاس کوئی ایسا ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں  ہے جس اسے آسانی سے ایک سے دوسری جگہ تک لے جائے۔اگر ضرورت یا آسائش کا سامان خریدنا چاہتا ہے تو بھی اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے کیونکہ کہیں بھی انہیں رعایت نہیں دی جاتی اور معمول کی زندگی گزانے کیلئے انہیں اپنی پنشن کے پیسے کم لگنے لگتے ہیں ۔

جب ہم پنشن کی بات کرتے ہیں تو یہ تو ہم سرکاری اداروں سے ریٹائر بزرگوں کی بات کرتے ہیں لیکن نجی اداروں میں تو کسی قسم کی پنشن نہیں دی جاتی اور وہ شخص اپنی اولاد اور معاشرے کا محتاج ہوکر رہ جاتا ہے اور اسے اپنی زندگی گزارنا مشکل لگنے لگتا ہے اور وہ ہائپرٹینشن، شوگر اورایسی دیگر بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے،بزرگ خود سے نہیں مرتے بلکہ انہیں یہ معاشرہ ماررہا ہے۔

پی ٹی آئی کی تبدیلی سرکار نے بزرگوں کیلئے پناہ گاہیں تو بنادی ہیں مگر ان کو ان کا حق نہیں دیا مطلب یہ ہے کہ خیرات دینے سے بہتر ہے کہ ان کو ہر مقام پر آسائشیں دی جائیں۔ چاہے وہ بس کا کرایہ ہویا جہاز، ہوٹل ہو یا ریستوران ہر جگہ بزرگوں کو رعایت دی جانی چاہیے مگر برعکس اس کے بزرگ جب اپنے پیسے نیشنل سیونگ میں رکھتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس لگادیا جاتا ہے جو کہ آمدنی نہیں ہوتی بلکہ ان بزرگوں کی محنت کی کمائی جس پر وہ پہلے ہی ٹیکس ادا کرچکے ہیں اور بچت کرکے وہ پیسہ بڑھاپے کیلئے رکھا لیکن بڑھاپے میں بھی کسی حکومت نے ان پر رحم نہیں کھایا اور ان کی جمع پونجی پر بھی ٹیکس لگاکر انہیں شدید رنج پہنچایا ہے۔

اس حکومت کو چاہیے کہ ریٹائرڈ لوگوں کے اوپر سے تمام ٹیکسز ختم کردے کیونکہ وہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرتے ہوئے اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔اب اس ملک کو چاہیے کہ ان کو وہ سہولتیں دے جن کی قیمت انہوں نے جوانی میں ادا کی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ہر ریٹائرڈ افسر کو استعمال کرے اور مختلف محکموں میں انہیں مشیر کی نوکری دی جائے کیونکہ تجربے سے زیادہ مفید کوئی اور تعلیم نہیں ہوتی ۔

پاکستان میں بیرون ممالک سے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور ان کو اونچے عہدوں پر بڑی بڑی تنخواہوں  پر رکھا جاتا ہے جن کو پاکستان کے عوام اور اداروں سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہوتا مگر ان کے پاس باہر کی یونیورسٹیوں کی تعلیم کے سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں جو اس ملک کے کام نہیں آتی کیونکہ ان یونیورسٹیوں میں جو پڑھایا جاتا ہے اور جس طرح سے پڑھایا جاتا ہے وہ تھرڈ ورلڈ ممالک کے حالات سے نہیں گزرے ہوتے ہیں ۔ ان کی کتابی باتیں کسی ملک کو کامیاب نہیں کرسکتیں،صرف تجربہ اور تعلیم ہی کامیاب کرتی ہے۔

بزرگوں کو اگر ہم تمام محکمہ جات میں بطور مشیر تعینات کریں تو جو پیسے ہم پنشن کی صورت میں انہیں دے رہے ہیں ان کو موجودہ تنخواہ کے حساب سے ادائیگی کی جائے اور ان کے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آرگنائزیشنز ، اداروں اور ان کے کام کرنے والے عملے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

میری گزارش ہے کہ بزرگوں کو عضو معطل سمجھنے کے بجائے انہیں کارآمد بنایا جائے اور انہیں شو پیش کی طرح گھر میں سجانے کے بجائے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاکر انہیں معاشرے کا باعزت حصہ بنایا جائےکیونکہ یہ ہمارے ملک کی شان ہیں انہیں سے ہمارا ملک اور ہمارا ملک آباد ہوسکتا ہے کیونکہ تجربہ خریدا نہیں جاسکتا۔

Related Posts