بے بس ریاست کے خودمختار ڈاکو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ اور پنجاب کی سرحد کے درمیان واقع کچے کے علاقوں میں ڈاکوراج کی کہانیاں توآپ نے سن رکھی ہونگی جہاں ڈاکو راج آج سے نہیں گذشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔

یہاں ڈاکو کے پاس جدید اسلحہ ہے، جرم کی داستانیں ہیں،اگر یہاں اغوا کار ہیں اور مغوی ہیں تو پھر پولیس کے کمانڈوزبھی ہیں اور پولیس افسران بھی ہیں مگر طوطی صرف ڈاکووں کاہی بولتاہے۔

سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے سرحدی راستوں، قومی شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو یہ کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں، گذشتہ کئی دنوں سے کشمور تا کراچی سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاج جاری ہے، مظاہرین میں زیادہ ترسندھی ہندو برادری کے لوگ شامل ہیں جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ سندھ میں ڈاکو گردی اور بالخصوص ہندو برادری کے افراد کا پے در پے اغوا بند کرایا جائے۔

پچھلے تین سے چار دہائیوں سے کچے کا علاقہ اور کچے کے ڈاکو بلا تعطل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ سکھر میں 25 سے 30 گھوٹکی میں 10 سے زائد اور کشمور میں 3 مغوی تاحال رہائی کے منتظر ہیں، بیشتر مغویوں کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے کچے کے علاقے میں آپریشن کے لیے پولیس کے پاس روایتی ہتھیار جیسے جی تھری اور کلاشنکوف وغیرہ ہیں اور نقل و حرکت کے لیے بکتر بند گاڑیاں اور موبائل وین ہیں لیکن اس کے برعکس ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اور بھاری اسلحہ جیسے اینٹی ایئر کرافٹ گنز اور راکٹ گرنیڈ ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق بالائی سندھ کے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35 سے 40 افراد ڈاکووں کی تحویل میں ہیں،آزاد ذرائع کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں اس وقت ڈاکووں کی تحویل میں 200 سے زائد افراد موجود ہیں سندھ میں کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکو ایک سال میں 400 افراد کو اغوا کرچکے ہیں پنجاب میں دریائے سندھ کی گزر گاہ ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان کے دونوں اطراف کا علاقہ کچہ کہلاتا ہے جو کارِ سرکار کے بندوبست میں تو ہے مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے ان علاقوں میں جرائم پیشہ اور ڈاکوؤں کا راج ہے۔

سندھ کے شمالی حصے میں آٹھ اضلاع ہیں جن میں کشمور، جیکب آباد، قمبر شہدادکوٹ، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکار پور، سکھر اور خیرپور شامل ہیں، ان میں سے کشمور، گھوٹکی، شکار پور اور سکھر کے بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال زیادہ متاثر ہے، سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ڈاکوؤں کی تعداد روز بروز بڑھ کیسے رہی ہے اور وجویات کیا ہیں جس پر میں سمجھتاہوں کہ تعلیم کی کمی اور معاشی مواقع کا فقدان بھی ڈاکو راج کو پروان چڑھاتا ہے نوجوانوں کے پاس روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسے گروہوں کا با آسانی شکار بن جاتے ہیں۔

سندھ میں اغوا برائے تاوان کی پہلی واردات گھوٹکی ضلع کے سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع شہر ڈہرکی میں ہوئی تھی۔ بدنام زمانہ ڈاکو خدا بخش عالمانی نے ایک ہندو تاجر کو اغوا کیا تھا۔ اس سے قبل سندھ میں مویشی چوری کر کے ان پر تاوان طلب کیا جاتا تھا۔ کہا جاتاہے کہ شمالی سندھ کے کچے کے علاقے 1980 کی دہائی سے ڈاکووں کی پنا گاہیں ہیں یہ ڈاکو گروہ لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری کی وارداتیں کرتے ہیں یہ اکثر مخبری، پولیس کو اطلاع، یا قبائل کی آپسی دشمنی میں خونریزی میں بھی حصہ لیتے ہیں ان کے پاس راکٹ لانچر، اینٹی ایئیر کرافٹ رائفل، دستی بم اور جدید اسلحہ ہے یہاں اگر اصلی پولیس مقابلے ہوں تو نقصان عام طور پر پولیس کا زیادہ ہوتا ہے۔

سندھ کے تین اضلاع گھوٹکی، کشمور اور شکارپور ڈاکوؤں (دھاڑیلوں)، پولیس، وڈیروں اور ان کے سرپرستوں کیلئے سنہری تکون بنے ہوئے ہیں دریائے سندھ کے بائیں کنارے کچے کا علاقہ اور اس کے جنگلات ڈاکوؤں کے لئے ایک جنت اور محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ اغوا کی کارروائیوں کا زیادہ شکار روزانہ کی دیہاڑی لگانے والے کسان اور مزدور لوگ، کمزور ذاتوں اور برادریوں کے لوگ اور خاص طور پر اقلیتوں کے لوگ بنتے ہیں۔

معصوم بچے ہیں اور مسلسل ان کا ہدف ہندو برادری کے لوگ ہیں۔ مغویوں پر ڈاکو بہیمانہ تشدد کرتے اور ان کی ویڈیو جاری کرتے ہیں جس پر ان کے خاندان کے لوگ اور کہیں پولیس بھی ان کو خانگی طور پر چھڑوانے کی کوششیں کرتی ہے ڈاکو اکثر اوقات اپنے جدید اور خطرناک و جنگی نوعیت کے ہتھیاروں کی نمائش بذریعہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف ایک فون کال پر وہ خطرناک اور فوجی نوعیت کے ہتھیاروں کا ڈھیر لگا سکتے ہیں۔

صوبہ سندھ میں مراد علی شاہ تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ منتخب ہوگئے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 2008 سے اب تک مسلسل چوتھی بار سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ بس! سندھ پولیس بالخصوص دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اتنا سا کام کرنا ہے کہ چند ڈاکوؤں کو وہ زندہ گرفتار کرلیں، باقی تو وہ پھر خود ہی اُگل دیں گے کہ اُن کے لگا میں کن طاقت ور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔

یعنی کچے کے ڈاکوؤں کی جان جن طوطوں میں ہے وہ کون لوگ ہیں۔ فی فی الحال یہ جاننا بھی ضروری ہیکہ سندھ میں ایک مخصوص جماعت سندھ کی عوام پرہر طرح کاظلم ڈھانے کے بعد بھی الیکشن کیسے جیت جاتی یہ سب کچھ جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا سندھ حکومت کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ڈاکووں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آیا؟۔ ان ڈاکووں کو ٹھکانوں پر تقریبا 30 سال سے کس نے بٹھارکھاہے، موبائل فونز کس نے دلوائے، انٹرنیٹ کنکشن کیسے ہاتھ آئے، کس نے سر پر ہاتھ رکھا، پردے کے سامنے ڈاکو اور پردے کے پیچھے کون کون ہے ۔

آج کندھ کوٹ میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آواز بلند کرنے والے ایک استادکے قتل پربات ہورہی ہے، پرائمری ٹیچر اللہ رکھیو نندوانی کو کچے کے ڈاکووں نے مبینہ طور پر قتل کردیا ہے،ا للہ رکھیو نندوانی کچے کے ڈاکوووں کے خطرے کے باوجود بچوں کو پڑھانے کے لیے سکول پہنچتا تھا۔

اللہ رکھیو، گوٹھ نصراللہ بجارانی میں واقع سکول میں موٹر سائیکل پر اپنی بندوق لے کر پہنچتا تھا، استاد کی چند روز قبل بندوق لے کر سکول جانے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی اس وڈیو میں اللّٰہ رکھیو نندوانی نے کہا تھا کہ وہ بچوں کے مستقبل کے لیے جان کو خطرے میں ڈال رہاہے کیونکہ علاقے میں خطرناک لوگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

قارئین کرام بات صرف اتنی ہے کہ پولیس اورقانون نافذ کرنے والے دیگرادارے کیا کررہے ہیں،پولیس کا کام تو اب صرف اگاہی کرنا رہ گیا ہے پولیس کی جو ذمہ داری ہے اب وہ عوام کو اگاہی مہم کے ذریعے ادا کرکے پوری کی جا رہی ہے کیونکہ اس سے زیادہ پولیس کچے کے ڈاکووں کے خلاف اور کچھ کر بھی نہیں سکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ پکے کے اکثر سیاسی ڈاکو پولیس کے اوپر حکمران بنا کر مسلط کر دیئے گئے ہیں۔

Related Posts