غزہ کا رستا ہوا خون

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے۔ بیت المقدس کائنات میں ایک ا یسی مقدس زمین کا ٹکڑا ہے جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے مقدس ترین مقام ہے۔

بلاشبہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اوّل بھی ہے، سرورِ کونین ﷺ کی بعثت سے قبل بیت المقدس پہ عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ مسلمانوں کا پختہ عقیدہ ہے کہ سرورکونین ﷺ نے ایسی مقدس سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطابؓ کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا اور پھرمسلمان اس مقدس سرزمین کے وارث بن گئے۔ الشیخ محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ اور خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تحفہ ہے اس کی حفاظت ہرمسلمان پر فرض ہے۔ 1099ء میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرکے ایک مرتبہ پھر بیت المقدس پر قبضہ کیا گیا مگر مسلمانوں کے عظیم فاتح حکمران سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے تقریباََ 16 جنگیں لڑکر عیسائیوں کو شکست فاش دی اور بیت المقدس پہ اسلام کا پرچم لہرا کر امن کا گہوارہ بنا دیا۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد جس میں صدیوں پر محیط مسلمانوں کی عظیم سلطنت خلافت عثمانیہ کے سقوط کا جگرخراش سانحہ رونماہوتے ہی عالم کفر نے انتہائی عیاری و مکاری سے دنیا بھر کی ذلیل و رسوا ترین قوم یہودیوں کو ایک معاہدے کے تحت سرزمین فلسطین میں آباد کرنا شروع کردیا۔ یہودیوں نے انتہائی مکاری کے ساتھ امریکہ، برطانیہ  اور یورپ سمیت صیہونی قوتوں کے ساتھ مل کر تمام معاہدوں اور وعدوں کو روندتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بناشروع کردیا اور ہزاروں سالوں سے آباد مسلمانوں کو بیت المقدس کی مقدس سرزمین سے بے دخل کرکے قبضہ کرلیا ، اب تک مٹھی بھر یہودیوں نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر کفریہ طاقتوں کے زورپر ہزاروں فلسطینیوں کو شہید اور لاکھوں کو زخمی اور بے گھر کرچکے ہیں۔ 
گزشتہ چند روز سے غزہ اور فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوزمظالم کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔ صیہونی قوتیں اسرائیل کے ساتھ ایک صف میں کھڑیں ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب مل کر فلسطین کے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ اسرائیلی وحشانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ کی سیکڑوں بستیاں ملیامیٹ ہوچکی ہیں۔ اسرئیل کے گولہ بادرود سے ہزاروں فلسطینی بچے اور مرد و زن شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے۔ اس ظلم و بربریت کی ایک ہی وجہ یہ ہے کہ قبلۂ اوّل پر یہودیوں کا دائمی غاصبانہ قبضہ و تسلط قائم رہے ، پرکیا بیت المقدس کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ ہے بلکہ یہ تو پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ قبلۂ اوّل کا غم صرف فلسطین کا غم نہیں بلکہ مسلم اُمہ کا مشترکہ غم ہے۔ اب تک فلسطین کے معصوم بچے ، مائیں ، بہنیں ، جوان اور بزرگوں نے جس جرأت، استقامت اور بہادری سے ان کا مقابلہ کیا اور حماس کے مجاہدوں نے جو لازال داستانیں رقم کیں، وہ امت مسلمہ پہ ایک قرض ہے اور قیامت کے روز جب ربِّ ذوالجلال کے سامنے مسلمانانِ فلسطین کا مقدمہ پیش ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ استغاثے کے گواہوں میں غزہ کی نہتی بہادربیٹیاں، خون میں لت پت شیرخوار نونہال بچے، فلسطین کے پرچم پہ لپٹے نوجوان شہزادے اور ایک اندھے عالم دین شیخ یٰسین کو بھی بلایاجائے گا۔ وہ گواہی دینگے کہ ہم لٹتے کٹتے مرتے بیت المقدس (جو امانت ہے سرورِ کونین ﷺ عمرؓبن خطاب اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی، اس) کے تحفظ کے لئے امت مسلمہ کو آوازیں دیتے رہے مگر خواب غفلت میں سوئی ہوئی مسلم امہ عیش و عشرت میں مگن تھی۔ 
کیا فلسطین کا مسئلہ عام سیاسی مسئلہ ہے؟ کیا بیت المقدس کا قضیہ باہمی گفت و شنید سے حل ہوسکتا ہے؟ ماضی میں درجنوں مرتبہ اقوام عالم کی نمائندہ تنظیم اقوام متحدہ نے مسئلہ بیت المقدس پر تصفیہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ، اسرائیل کو جنگی جرائم سے باز رہنے پر زور دیا، فلسطینیوں کی آبادیوں پہ قبضہ کرنے سے بارہا مرتبہ روکا گیا مگر یہودی کب باز آئے؟ اسرائیل نے درجنوں مرتبہ عہد شکنی کی۔ اقوام متحدہ اور عالمی رہنمائوں کے سامنے کئے گئے معاہدوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے فلسطینیوں پرحملہ کیا گیا۔ فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، ربِّ کعبہ کی قسم! وہ ہاتھ نہایت محترم و مقدس ہے جس ہاتھ میں صلح کا سفید پرچم لہرا رہاہے ، لیکن اس ظالم دنیا میں وہی محفوظ ومامون ہے جسکے ہاتھوں نے مضبوطی کے ساتھ تلوار کو تھاما ہوا ہے۔ یہی اقوام کی زندگی کا منبع ہے، قیام امن و عدل وانصاف اور ایک پر امن معاشرے کا قیام مظلوموں کے حقوق کا ضامن ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے (ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کو کتاب اورمیزان دی تاکہ لوگ عدل اور انصاف پر قائم ہوں، نیز لوہا پیدا کیا جو ہتھیاروں کی صورت میں سخت خطرناک بھی ہے اور نفع رساں بھی، القرآن)۔ فلسطین کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ مسلم حکمرانوں میں نفسا نفسی کا نہ ختم ہونے والادوردورہ ہے۔ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو، اس کا فرض ہے کہ بیت المقدس کے تعلق کو ایک خالص دینی رشتے کی طرح اپنے قلب وجگر میں محفوظ رکھے دنیا کی جو حکومت غزہ اور بیت المقدس کی دشمن ہو، اس کو اسلام کا دشمن اور جو اس کی دوست ہو اس کو اسلام کا دوست سمجھے، کیونکہ مسلمانوں کی دوستی اور دشمنی انسانی اغراض و مقاصد کے لئے نہیں بلکہ صرف دین اسلام کے لئے ہے۔ اسرائیل کا فلسطین کے مسلمانوں پر جارحیت وبربریت پرمبنی یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ فلسطین اس طویل اور خونی تنازعے کوتقریباً 75 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس کا کوئی مستقل حل نظر نہیں آرہا ہے جس کی اصل وجہ بالخصوص عرب ممالک کے حکمران اور بلعموم طور پر مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

حکمرانوں کو مسئلۂ فلسطین کے پائدار اور پر امن حل کے لئے رسمی مذمتی بیان داغنے کی بجائے ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح امریکہ اور دیگر ممالک کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، مسلم حکمرانوں کو بھی کھل کر اسرائیل کی مرمت کے لئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ مسلم امہ اسرائیلی معیشت کو زمین بوس کرنے کے لئے اسرائیلی مصنوعات کا کھل کر بائیکاٹ کریں تاکہ غزہ کے مسلمانوں کے پانی اور خوراک بند کرنے والوں کو دن میں تارے نظر آئیں۔ بیت المقدس اور غزہ کے مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ہم صرف مذمت نہ کریں بلکہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور مرمت کا راستہ اپنائیں۔ 

Related Posts