بابر اعظم کی کپتانی کا مسئلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بابر اعظم قومی کرکٹ ٹیم کا وہ سابق کپتان ہے جس نے متعدد بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے اور آج کل اسے پی ایس ایل کی کپتانی سے بھی ہٹانے کی بات کی جارہی ہے۔

ضروری نہیں ہے کہ وسیم اکرم، گوتم گمبھیر یا کسی بھی ماہر سے ماہر کرکٹر کی بابر اعظم کے متعلق یہ رائے درست ہو کہ وہ پی ایس ایل کی کپتانی چھوڑ کر اپنی بیٹنگ پر توجہ دیں، تاہم بابر اعظم کی کپتانی پر سوالات اٹھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

اہم ترین بات تو یہ ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ 2023 کے دوران بد ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، حالانکہ ٹیم نے کچھ میچز جیتے بھی، تاہم مجموعی نتیجہ یہ رہا کہ ہم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہیں کرسکے اور بھارت فائنل میں پہنچ گیا۔

آسٹریلیا نے ورلڈ کپ جیت کر ورلڈ کپ کے باقی تمام میچز میں ناقابلِ شکست رہنے والی بھارتی ٹیم کے دانت کھٹے کردئیے جس پر پاکستان میں بیٹھے شائقین بھی بلاوجہ خوش ہوتے دکھائی دئیے، حالانکہ بھارتی ٹیم ورلڈ کپ کی رنر اپ بنی، یہ بھی کوئی برا اعزاز نہیں تھا۔

مقابلتاً قومی کرکٹ ٹیم کی بری کارکردگی پر بابر اعظم کو ایک طرح سے سزا دی گئی، تسلیم، کہ بابر اعظم اور کرکٹ بورڈ کے بیانات سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹایا گیا، بلکہ ظاہر یہ کیا گیا کہ یہ فیصلہ بابر اعظم نے خود کیا ہے۔

تاہم فیصلے سے تھوڑا سا پہلے پاکستانی میڈیا کی قیاس آرائیاں کہ بابر اعظم کو کپتانی چھوڑنی ہی ہوگی اور اس سے قبل بابر اعظم کے بیانات سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بابر اعظم اپنے طور پر کپتانی چھوڑنے کے حق میں تھے، اس لیے اس پر سوالات اٹھتے ہیں۔

حال ہی میں قومی ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بابر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ نامور کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلنے، رنز بنانے اور کھیل کا لطف اٹھانے پر توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ چند سال پہلے بھی بابر اعظم کو لیگ کرکٹ میں کپتانی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

وسیم اکرم نے کہا کہ بابر اعظم ایک بڑے کھلاڑی ہیں۔ میں نے کہا کہ اپنا پیسہ لیں، کھیل کھیلیں، رنز بنائیں اور گھر جائیں۔ اور پھر اگلا ایونٹ کھیلیں۔ پاکستان کی کپتانی ٹھیک ہے لیکن لیگ کرکٹ میں بلاوجہ کپتانی اضافی ذہنی تناؤ کا باعث بنتی ہے۔

اگر قارئین کو یاد ہو تو خود وسیم اکرم کی کپتانی کے دور میں، اگر دیگر کامیابیاں نظر انداز کی جائیں تو پاکستانی ٹیم 1996 کے ورلڈ کپ میں کوارٹر فائنل تک تو پہنچی لیکن وہاں بھارت سے ہائی وولٹیج میچ ہار کر واپس گھر آگئی تھی۔

تاہم اس کے باوجود وسیم اکرم کو کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہاں وسیم اکرم اور بابر اعظم کے مابین مقابلہ مقصود نہیں کیونکہ ویسے بھی بابر اعظم ایک بیٹر اور وسیم اکرم ایک بولنگ کپتان تھے جس نے بعض اوقات بہت اچھی بیٹنگ بھی کی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بابر اعظم کو لیگ کی کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ بھی یکطرفہ طور پر سنانے کی بجائے قومی ٹیم کے سابق کپتان کی رائے بھی سن لی جائے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور بہتر ہوگا کہ اس رائے کا احترام کیا جائے۔

ہمارے سابق قومی کرکٹرز اور گوتم گمبھیر سمیت بھارتی یا دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کے تجزیہ کاروں اور کھلاڑیوں کی رائے بھی احترام کے قابل ہے تاہم سب سے زیادہ اہمیت اس شخص کی رائے کو دی جانی چاہئے جس کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے، خاص طور پر اس وقت جب اس نے ملک کیلئے متعدد اعزازات اپنے نام کر رکھے ہوں۔ 

 

Related Posts